امریکی صدارتی انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے عوام کو حیران اور ششدر کردیا۔ امریکی اور مغربی میڈیا ہیلری کلنٹن کی کامیابی کے دعوے کررہے تھے۔ سروے اور اندازے دھرے رہ گئے اور ٹرمپ ’’اپ سیٹ‘‘ کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے 290 الیکٹرول ووٹ حاصل کیے جبکہ ہیلری صرف 228 ووٹ حاصل کرسکیں۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ پر ناتجربہ کاری، غیر مہذب، متعصب، نسل پرستی اور مسلمان دشمنی کے الزامات لگائے گئے جبکہ ہیلری کو مہذب، شائستہ، انسان دوست اور امن پسند قرار دیا گیا۔ مفکر، فلسفی شاعر علامہ اقبال کا وژن درست ثابت ہوا کہ مغربی جمہوریت ’’دیواستبداد‘‘ ہے اور جمہوریت کے پردے میں ’’ملوکیت‘‘ ہے جب تک مغربی جمہوریت کو اخلاقیات کا پابند بنا کر اسے روحانی، سماجی اور شراکتی جمہوریت نہ بنایا جائے یہ امن پسند اور انسان دوست نہیں ہوسکتی۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں بھارت اور امریکہ کے عوام نے انتہا پسند سیاستدانوں نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا وزیراعظم اور صدر منتخب کیا ہے حالانکہ جمہوری ارتقاء کا نتیجہ انسان دوستی، اعتدال اور برداشت ہونا چاہیئے تھا۔ مغربی جمہوریت نے سرمایہ دارانہ اجارہ داریاں اور غربت کے جزیرے پیدا کیے ہیں لہذا جمہوری نظام پر پوری سنجیدگی سے نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ جمہوریت کو انسان دوست اور امن پسند بنایا جاسکے اور انتہاپسندی فروغ نہ پا سکے۔
امریکی اسٹیبلشمینٹ کو ڈونلڈ ٹرمپ کی صلاحیت اور استعداد کے بارے میں شدید تحفظات تھے لہذا اس کے زیراثر میڈیا نے ہیلری کلنٹن کے حق میں مہم چلائی کیونکہ ہیلری کلنٹن اسٹیبلشمینٹ کی پسندیدہ سیاسی رہنما تھیں۔ ڈیموکریٹ صدر اوبامہ دو ٹرم لے چکے تھے لہٰذا عوام نے تبدیلی کو ووٹ دیا اور ٹرمپ کو منتخب کرلیا۔ ہیلری تیس سال سے سیاسی منظر پر تھیں ان کے ساتھ تلخ اور شیریں یادیں وابستہ تھیں جبکہ ٹرمپ نئے تھے اور چند شخصی خامیوں کے علاوہ ان پر حکومتی خرابیوں کا بوجھ نہیں تھا۔ انہوں نے روزگار کی فراہمی کو انتخابی مہم کا مرکزی نعرہ بنایا جو ان کی کامیابی کا ضامن بنا۔ ہیلری کی جماعت ڈیمو کریٹ آٹھ سال سے اقتدار میں تھی وہ نئے نعرے دینے اور نئے وعدے کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ اس کی مہم ٹرمپ کے خلاف ذاتی حملوں تک محدود رہی لہٰذا امریکی عوام نے تبدیلی کو مناسب سمجھا اور ہر قسم کے پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے نئے چہرے کو منتخب کرلیا۔ مغربی جمہوریت کے حامی اگر جمہوری ارتقاء کا جائزہ لیں تو ان کو معلوم ہوکہ جمہوری سفر بھارت میں نہرو سے مودی تک پاکستان میں قائداعظم سے نواز شریف تک اور امریکہ میں جارج واشنگٹن سے ڈونلڈ ٹرمپ تک زوال پذیر ہوا ہے۔ جمہوریت کے عروج سے زوال کی جانب سیاسی سفر کے بعد اس نظام پر نظرثانی کی جانی چاہیئے۔ ووٹر و اُمیدوار کی اہلیت مقرر کی جانے کی ضرورت ہے ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ (اقبال)۔
امریکی سیاسی نظام میں فقط چہرے بدلتے ہیں پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیںوہ قومی مفادات کے تابع رہتی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران اُمیدوار ووٹروں کو رام کرنے کے لیے جذباتی باتیں کرتے ہیں۔ پاکستان کے مقبول سیاستدان انتخابی جلسوں کے دوران امریکہ کے خلاف سخت تقریریں کرتے اور امریکی سفیر سے ملاقات کرکے اپنی سیاسی مجبوری کا اظہار کرتے۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اشتعال انگیز تقریریں کیں مگر امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے پہلے خطاب میں اپنے لہجہ کو تبدیل کرتے ہوئے کہا ’’میں تمام امریکی شہریوں کا صدر ہوں۔ رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا‘‘۔ ہیلری نے باوقار انداز میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ’’ٹرمپ ہمارے صدر ہوں گے ہم کھلے ذہنوں کے ساتھ ان کو موقع دیں گے‘‘۔ امریکہ کے منتخب صدر کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے وہ من مانی نہیں کرسکتا البتہ وہ پارٹی منشور اور قومی مفادات کے درمیان توازن پیدا کرتا ہے۔ سی آئی اے کی بریفنگ کے بعد ٹرمپ کا رویہ معتدل اور متوازن ہوجائے گا۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن حکومتوں کا پاکستان کے بارے میں رویہ کم و بیش ایک جیسا ہی رہا ہے۔ امریکی قومی مفادات کو ہمیشہ ترجیح دی گئی۔ 1965ء پاک بھارت جنگ کے دوران جانس (ڈیموکریٹ) امریکی صدر تھے۔ 1971ء سقوط ڈھاکہ امریکی صدر رچرڈسن (ری پبلکن) کے دور میں ہوا۔ ذوالفقار بھٹو کو پھانسی 1979ء میں جمی کارٹر (ڈیموکریٹ) کے دور میں دی گئی۔ امریکہ نے رونلڈ ریگن (ری پبلکن) کے دور میں پاکستان سے روس کے خلاف افغان جہاد میں کام لینے کے بعد 1983ء میں پاکستان پر پریسلر ترمیم کے تحت پابندیاں عائد کردیں۔ جارج بش (ری پبلکن) نے 1989ء میں قیمت وصول کرنے کے باوجود پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے سے انکار کردیا۔ بل کلنٹن (ڈیموکریٹ) نے کارگل معرکہ (1999) پر پاکستان کو زچ کیا۔ جارج بش (ری پبلکن) نے 2001ء میں سنگین دھمکی دے کر پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شراکت اور تعاون کے لیے سات شرائط تسلیم کرالیں۔ اوبامہ (ڈیموکریٹ) نے مالی و جانی قربانیاں پاکستان سے لیں مگر غیر معمولی دوستی بھارت سے کرلی۔ 1928ء کے بعد ٹرمپ امریکہ کے پہلے طاقتور صدر ہوں گے جن کو امریکی کانگرس اور سینٹ کی اکثریتی حمایت حاصل ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ (ری پبلکن) کی پاکستان اور اسلام سے دشمنی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہر امریکی صدر انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کشمیر پر ثالثی کا وعدہ کرتا رہا جو ٹرمپ نے بھی کیا مگر یہ وعدہ کبھی وفا نہ کیا گیا۔ ٹرمپ کی یہ دھمکی ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔ ٹرمپ سے سعودی عرب، چین اور ایران کو بھی خطرہ ہے جبکہ ٹرمپ بھارت کو امریکہ کا ’’بہترین دوست‘‘ بنانے کا عندیہ دے چکا ہے۔ امریکی انتخاب کے نتائج چونکہ عوام کی توقعات کے برعکس تھے لہٰذا امریکہ کے مختلف شہروں میں ٹرمپ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔
ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پاکستان کی تشویش بجا ہے۔ ٹرمپ، مودی اور اشرف غنی پر مبنی ٹرائیکا پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوشش کرے گا جس کا بڑا مقصد چین کو عالمی معاشی طاقت بننے سے روکنا ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ امریکہ اور بھارت کو کھٹکتا ہے جو اس ملٹی بلین گیم چینجر منصوبے کو اپنے علاقائی بلکہ عالمی قومی مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ چین پاکستان ایران اور سعودی عرب امریکہ کے لیے ترنوالہ ثابت نہیں ہوں گے۔ ان ملکوں کے پاس ایٹمی صلاحیت، تیل ، معدنی وسائل، پیشہ وارانہ طاقتور افواج اور مثالی عوام ہیں جو آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں البتہ پیش بندی لازمی ہے۔ یہ ممالک ٹریک ٹو ڈپلومیسی کرکے باہمی اعتماد، اشتراک اور سٹریٹجی کو مستحکم بنائیں۔ پاکستان فارن آفس کو معیاری، فعال اور مضبوط بنائے۔ فوری طور پر کل وقتی وزیرخارجہ نامزد کیا جائے جو اہلیت، محنت اور عزم کے ساتھ آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرے۔ امریکہ میں پاکستان کے لیے لابنگ کرنے کے لیے اہل اور تجربہ کار لابسٹ متعین کیے جائیں۔ دفاعی اور سفارتی امور کے ماہرین متفق ہیں کہ پاکستان کو ٹرمپ اور مودی سے نہیں بلکہ ان کے پاکستان کے اندر ایجنٹوں اور معاونین سے خطرہ ہے جب حکومت ’’سکیورٹی لیکس‘‘ کی تفتیش پر دو ماہ صرف کردے تو پھر حکمرانیت کی نااہلی اور بدنیتی سے قومی سلامتی کے بارے میں اندیشے بڑھنے لگتے ہیں۔ پورے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان کے وفادار سپوت وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے ہاتھ بندھے ہوئے نہ ہوتے تو 48گھنٹے کے اندر سکیورٹی لیکس کا ماسٹر مائنڈ جیل میں بند ہوتا۔ افسوس یہ ہے کہ ایٹمی ریاست کو چلانے کے لیے جس اہلیت ، استعداد اور نیک نیتی کی ضرورت ہے اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ معصوم اور بے گناہ انسانوں کے قاتل دہشت گرد گرفتار ہوتے ہیں، اسلحہ کی کھیپ پکڑی جاتی ہے مگر سول حکومت کی نتیجہ خیز کاروائی نظر نہیں آتی۔ ٹرمپ اور مودی کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی حکومت وقت کا تقاضہ ہے جس میں اہل، دیانتدار اور محب الوطن سیاستدان اور ٹیکنو کریٹس شامل ہوں۔ اخلاقی اتھارٹی سے محروم حکومت چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38