غزل
وہ دن بھی آئے گا کہ گْلستاں میں آئیں گے
صحرا سے ہم نکل کے خیاباں میں آئیں گے
وعدہ کیا ہے آنے کا ، وہ آئیں گے ضرور
اک دن وہ میرے کلبہ احزاں میں آئیں گے
صیّاد کے جو خوف سے صحرا میں جا بسے
وہ سب طیور پھر سے گْلستاں میں آئیں گے
کس کس کی دستبْرد نے رسوا کیا ہمیں
نام اْن کے ذکرِ چاکِ گریباں میں آئیں گے
پروانہ وار جتنے جلے گِردِ شمعِ شب
اْن کے شرر بھی شمعِ شبستاں میں آئیں گے
جن کو سمجھ کے حرفِ مکّرر مٹا دیا
وہ سارے نقش عکسِ گریزاں میں آئیں گے
گزرے تھے ہم پہ جعفری جتنے بھی حادثات
وہ حادثات پھر شبِ ہجراں میں آئیں گے
(ڈاکٹر مقصود جعفری، نیویارک)