جمعرات، 10شوال 1443ھ‘ 12 مئی 2022ء

بہاولپور چولستان میں پانی کی قلت اور شدید گرمی کے باعث مویشی مرنے لگے
جب ہم عالمی اور ملکی ادارہ ماحولیات والوں کی ہر سال بار بار جاری کی جانے والی اپیلوں پرکان نہیں دھریں اور اپنے دستیاب آبی وسائل کو بے دردی سے ختم اور نئے آبی ذخائر کی دستیابی یقینی نہیں بنائیں گے تو سرسبز پاکستان میں قحط زدہ ایتھوپیا جیسی صورتحال پیدا ہونے میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اس کی شروعات ہو چکی ہے۔ عالمی ادارہ ماحولیات کے مطابق پاکستان ان 5 بڑے ممالک میں شامل ہے جہاں آبی قلت کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو چکی ۔ بارشیں معمول سے کم ہو رہی ہیں۔ جنگلات مٹ رہے ہیں دستیاب پانی کو محفوظ نہیں بنایا جا رہا۔ یہ آج کی بات نہیں ہر سال یہ شور و غوغا مچا رہتا ہے۔ مگر عملی طور پر آبی ذخائر میں اضافے کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آ رہا۔ کالا باغ ڈیم ہم سیاست کی نذر کر چکے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں نہریں خشک ہیں۔ پانی میں آدھے سے کم پانی دستیاب ہے۔ صحرائی علاقوں، تھر، چولستان میں جانور پیاس اور گرمی کی تاب نہ لا کر مر رہے ہیں۔ شائع ہونے والی تصاویر دیکھ کر اندازہ نہیں ہو رہا کہ یہ ایتھوپیا ہے یا پاکستان۔ چولستان میں جابجا مویشیوں کی لاشیں بکھری ہوئی ہیں۔ اب بھی اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو یہ سرسبز پنجاب بھی بنجر ہو سکتا ہے۔ جب پانی اور سبزہ نہیں ہو گا تو کیا حیوان کیا انسان سب یا تو بھوکے رہیں گے یا یہاں سے ہجرت کر کے دوسرے علاقوں میں جا بسیں گے۔ صدیوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے۔ قدیم دور سے ہی طاقت ور ممالک یا طبقے اس لئے سرسبز شاداب اور خوشحال ممالک پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرتے تھے کہ معاشی اور زرعی خوشحالی ہاتھ آئے۔ ایک ہم ہیں کہ اپنا سرسبز و شاداب ملک کو بنجر بنتا دیکھ کر خاموش بیٹھے ہیں۔
٭٭٭٭٭
سنگاپور نے بھارت کی مسلمان دشمن فلم دی کشمیر فائلز پر پابندی لگا دی
کاش ہمارے مسلم ممالک بھی دینی حمیت نہ سہی مسلم جذبات کے مشتعل ہونے کے حوالے سے ہی ایسے مکروہ پراپیگنڈے پر مشتمل فلموں پر اپنے ہاں پابندی لگا دیں۔ اشک شوئی کے لیے اتنا ہی کافی ہوتا کہ مسلم ممالک نے مسلمانوں کے خلاف منفی پراپیگنڈے کرنے والی فلموں پر پابندی لگا دی ہے۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ سنگاپور کے اس فیصلے کے بعد تو
’’اج تے رولا پئے گیا سنگاپور بازی لے گیا‘‘
کے نعرے لگنے چاہئیں۔ جو کام ہم سے نہ ہو سکا وہ ایک غیر مسلم ملک نے کر دکھایا اور ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔ اقبال جیسے مرد و انا نے ایسے ہی موقعوں کے لیے کیا خوب کہا تھا
’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘
اب جب سنگاپور جیسا ملک اپنے ملک آباد مسلم آبادی کے جذبات کا خیال رکھا ہے۔ بھارت کی بدنام زمانہ مسلم دشمن فلم کشمیر فائلز پر پابندی لگا سکتا ہے تو بھارتی فلموں کے حوالے سے ہمیں بھی اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہئے۔ اس فلم میں منفی پراپیگنڈا کرتے ہوئے کشمیریوں کی تحریک آزادی کودہشت گردی سے جوڑنے اور اس میں پاکستان کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔ باقی انصاف پسند اور جمہوری مغربی ممالک کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ہاں آباد مسلم اقلیت کے جذبات کا خیال رکھیں اور شرپسندی پھیلانے والی فلموں پر پابندی لگائیں۔ بھارت کی یہ بڑی پرانی چال ہے کہ وہ ثقافت ،کلچر ، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلام کو بدنام کرتا پھرتا ہے۔ مگر اب دنیا بدل رہی ہے۔ منفی پراپیگنڈے سے حقائق کو زیادہ دیر چھپایا نہیں جا سکتا۔
٭٭٭٭٭
گورنر ہائوس کے باہر پولیس تعینات پرویز الٰہی کا سپیکر آفس میں اجلاس
یہ دو تصویریں ہیں۔ پنجاب میں اس عجیب افراتفری کی صورتحال کی عکاسی ہورہی ہیں جو پنجاب میں پھیلی نظر آ رہی ہے۔ گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی اپنا عہدہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔ دونوں اپنے اپنے دفاتر میں دھڑے سے بیٹھ کر ثہ ثابت کرنا چا رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے عہدوں پر فائز ہیں ۔ گورنر کو گورنر ہائوس میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پولیس کے چاق و چوبند دستے تیار کھڑے ہیں۔ گورنر کہہ رہے ہیں کہ وہ زبردستی کسی کو گورنر ہائوس پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ دوسری طرف سپیکر پنجاب اسمبلی اپنے آفس میں بیٹھ کر چند ایک مصاحبین کو جمع کر کے میٹنگز کرتے ہیں جس سے مخالفین جز بز ہو رہے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ لگتا ہے یہ تماشہ اب چند روز کا مہمان ہے۔ پھر سب کو قانون کے مطابق چلنا ہو گا ورنہ انتظامی و قانونی افراتفری زیادہ رہی تو پورے ملک پر اس کے برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا آبادی والا صوبہ ہے۔ یہاں کوئی بھی سیاسی محاذ آرائی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ سب جانتے ہیں کوئی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک لاہور میں اس کی بنیاد نہ پڑے۔ اس لیے اب افراتفری کی حالت خاص طور پر لاہور میں پیدا کی جا رہی ہے جس کا مطلب صاف لگ رہا ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر یہاں حالات کو اس نہج پر لے جا رہے ہیں جہاں حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے اور پھر کوئی دوسرا آ کر اس کی اصلاح کا عزم بالجزم کررہے۔ یوں کم از کم آٹھ یا دس سال یہی عزم بالجزم پورے ملک پر طاری رہتا ہے ایسے جیسے باری کا بخار۔
٭٭٭٭٭
سندھ ہر سال بلوچستان کا 32 فیصد پانی چوری کرتا ہے۔ ارسا
میڈیا پر چلنے والے پروگرام اور بیانات دیکھیں تو لگتا ہے پورا پاکستان سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے۔ مگر ارسا والے کوئی اور کہانی سنا رہے ہیں۔ سندھ والے وفاق پر برستے ہیں۔ پنجاب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پانی کی تقسیم میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ مگر یہ ’’الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔‘‘ والا معاملہ لگتا ہے۔ بلوچستان والے پہلے بھی کئی بار سندھ پر اس قسم کے الزام لگا چکے ہیں۔ مگر غریب کے بچے کی بات کون سنتا ہے۔ بلوچستان پہلے ہی آبی قلت کا شکار ہے۔ اوپر سے سندھ والے اس کا پانی چوری کر رہے ہیں۔ وہ بھی 32 فیصد۔ اس قسم کی صورتحال میں افواہوں کی بجائے حقائق پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل بنی ہی اسی لیے ہے۔ تمام صوبے یا وہ صوبے جنہیں پانی کے حوالے سے شکایت ہے وہ خود اس کا اجلاس بلا کر اپنا مسئلہ پیش کرے اور مشترکہ مفادات کونسل اس کا حل نکالے یوں کسی کی حق تلفی نہیں ہو گی اور سب کو اس کے حصے کا پانی بھی ملے گا۔ بھائیوں کے درمیان اگر کوئی اختلاف نہ ہو تو مل بیٹھ کر ہی اس کا حل نکالا جاتا ہے۔ لڑنے جھگڑنے سے حل تو نہیں نکلتا ہے البتہ مسئلہ ضرور طول کھینچتا ۔