سابق ایرانی صدر احمدی نژاد ایران میں آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے بدھ کے روز اپنے کاغذات نامزدگی داخل کر دیے۔ سابق صدراحمدی نژاد نے اپنے حامیوں کے ساتھ وزارت داخلہ کے دفتر میں جا کر رجسٹریشن فارم پر کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اٹھارہ جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ چونسٹھ سالہ احمدی نژاد سن 2005 سے 2013 تک ایران کے صدر رہے تھے تاہم 2017 میں ہونے والے انتخابات میں انہیں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کی امیدواری کی مخالفت نہیں کریں گے۔ البتہ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے والی انتخابی کونسل احمدی نژاد کی امیدواری پر اس کے باوجود بھی روک لگا سکتی ہے۔ایران میں آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے رجسٹریشن کا آغاز منگل کے روز ہو گیا۔ یہ انتخابات ایسے وقت ہونے والے ہیں جب عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کا جوہری معاہدہ اب بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے اور تہران کے ساتھ مغرب کی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔صدر حسن روحانی ایرانی آئین کے مطابق صدر کے طور پر ایک مخصوص مدت کی حد کی وجہ سے دوبارہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ حالانکہ انتخابات میں اب صرف ایک ماہ ہی باقی رہ گیا ہے اور کئی امیدواروں کے الیکشن میں حصہ لینے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب تک کسی پسندیدہ امیدوار کا نام سامنے نہیں آ سکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا اور ایران کے خلاف عائد پابندیوں کی وجہ سے لوگوں میں صدارتی انتخابات کے تئیں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔مبصرین کا تاہم کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم رئیسی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں سخت گیر گروپوں کی حمایت ملنے کا کافی امکان ہے۔ متعدد سخت گیر امیدواروں نے کہا ہے کہ اگر رئیسی الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو وہ اپنی اپنی امیدواری سے دست بردار ہو جائیں گے۔آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے مقرر کردہ چیف جسٹس رئیسی کو ایران کی انتہائی طاقت ور شخصیات میں سے ایک سمجھا جا تا ہے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حالانکہ امریکی صدر جو بائیڈن جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ملک میں سخت گیر عناصر کے ہی اقتدار پر قابض ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔اٹھارہ جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں خواہ جس کی بھی فتح ہو اور جو بھی ملک کا صدر منتخب ہو اسلامی جمہوریہ کے نسبتا اعتدال پسند صدر حسن روحانی چار سالہ صدارت کی اپنی دو مدتیں مکمل کرکے رخصت ہو جائیں گے۔ ابھی یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ آیا ان کے اقتدار میں رہتے ہوئے ایران جوہری معاہدہ دوبارہ بحال ہوسکے گا یا نہیں جس سے سن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کو یک طرفہ طورپر الگ کر لیا تھا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024