بدھ ‘ 29؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 12؍مئی 2021ء
چکن مافیا کی کھال کون اتارے گا
چینی مافیا، آٹا مافیا، گھی مافیا کے بعد اب مرغی مافیا۔۔۔ خدا جانے ہمارا ملک کن کن مافیاز میں گھرا ہوا ہے۔ جہاں دیکھو کوئی نہ کوئی مافیا منہ کھولے عوام کو نگلنے کیلئے تیار ملتا ہے۔ پہلے ہی کیا کرپشن مافیا، لینڈ مافیا، قبضہ مافیا، سکولز مافیا اور ہسپتال مافیا نے کم ستم ڈھائے ہیں کہ اب یہ نئے نئے مافیاز وقفے وقفے سے ہمارے دل کو جلانے آجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا تعلق بھی انہی مافیاز سے ہوتا ہے اس لئے وہ انہیں ختم کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کرتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی بیخ کنی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اب یہ کمال بھی اس حکومت کے دور میں سامنے آیا ہے کہ برائلر مرغی کا گوشت گائے اور بھینس کے گوشت کے مقابلہ میں آکر کھڑا ہو گیا ہے ورنہ کیا مرغی کیا مرغی کا شوربہ !
کوئی ہے جو اس کم ذات مرغی کے پھوکے گوشت کو ہی دوبارہ اس کی اوقات پر لائے۔ نہیں کوئی نہیں کیونکہ اس وقت بڑے بڑے مرغی مافیاز خود حکومت کے پروں تلے بیٹھے ہیں۔ انہیں وہاں سے کون نکالے گا۔ سب کے پاس بے شمار بہانے ہیں۔ بے شمار افسانے ہیں۔ جو وہ سنا سنا کر حکمرانوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اب تو لگتا ہے عید کے موقع پر مرغی کا گوشت کھانے والے اس لذت سے محروم رہیں گے۔ اب یہ لذیذ غذا بھی اشرافیہ کے دسترخوانوںکی زینت بڑھاتی نظر آئے گی۔
٭٭……٭٭
نیب کا شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈلوانے کیلئے خط
ایک وقت تھا مسلم لیگ (ن) والے ’’شہباز تیری پرواز سے جلتا زمانہ‘‘ والے نعرے لگا لگا کر چھوٹے میاں کا دماغ عرش تک پہنچا دیتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ یہی شہباز قوت پرواز سے بھی محروم ہو گیا ہے۔ اڑنے سے بیشتر ہی اس کے پر کتر دیئے جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے گویا چاروں طرف بقول شاعر…؎
پر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر
یوں کسی طرف سے بھی پرواز ممکن نہیں۔ اس بار تو ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ عدالت کی طرف سے باہر جانے یعنی پرواز کرنے کی اجازت ملنے کے باوجود دفتری طریق کار آڑے آگئے اور انہیں اڑان بھرنے سے روک دیا گیا۔یوں ان کی ملک سے باہر جانے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس کے بعد تو گویا دبستان کھل گیا حکومت کے تمام ترجمان، وزیر، مشیر ان کو دوبارہ پنجرہ میں ڈالنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں۔ پرانے کھاتے پھر کھولے جا رہے ہیں۔ عدالتوں میں نظرثانی کی درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں کہ کسی طرح شہباز کو زیردام رکھا جا سکے۔ اسی حوالے سے نیب نے بھی ان کا نام ای سی ایل میں ڈلوانے کا خط لکھ کر ہائیکورٹ کی رولنگ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی درخواست کی ہے۔ اب عید کی چھٹیاں آگئی ہیں۔ عید کے بعد دیکھتے ہیں قیدی باہر جا سکتا ہے یا نہیں۔ ان کے حامی حکومت کو کوس رہے ہیں کہ وہ ظلم کر رہی ہے۔ مخالف اسے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ملک سے فرار ہونے کی واردات بتا رہے ہیں۔ کون سچا ہے، کون جھوٹا، اس کا فیصلہ عید کے بعد ہی سامنے آئے گا۔
٭٭……٭٭
گرفتاری کے وقت مسکرانے والی فلسطینی لڑکی مریم کی ویڈیو وائرل
یہ شہیدوں اور مجاہدوں کی بیٹیاں ہیں۔ کسی ظالم کا جبر‘ کسی غاصب کا ظلم انہیں توڑ نہیں سکتا۔ جھکا نہیں سکتا۔ یہ نڈر دلیر بچیاں بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کی بیٹیاں ہیں جو آتش نمرود میں بھی ہنستے مسکراتے کود پڑتی ہیں کیونکہ یہ سنت ابراہیمی ہے۔ گزشتہ تین روز سے اسرائیلی فوج نے بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں ظلم اور وحشت و بربریت کا جو بازار گرم رکھا ہے اس میں درجنوں فلسطینی مرد عورتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔ مسجد کے اندر خونریزی ہوئی شریر اسرائیلی فوجیوں نے مسجد کے صحن میں جگہ جگہ آگ لگائی مسجد عمرؓ کے ہال اور اندرونی حصہ کے دروازے اور کھڑکیاں توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ مریم نامی یہ لڑکی مسجد میں عبادت کے لیے آئی دیگر لڑکیوں کو اسرائیلی فوجیوں کی مار پیٹ سے تشدد سے بچانے میں سب سے آگے رہی۔ اسی لیے جب اسے گرفتار کیا تو وہ مسکرا رہی تھی اور کہہ رہی تھی میں نہیں چاہتی فلسطینی بچے خوفزدہ ہوں۔ اس ویڈیو کے بعد دنیا کے لوگ اسرائیل پر لعنت ملامت کر رہے ہیں۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:
’’عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‘‘
بے شک جب مجاہدوں کے سر پر تلوار چمکتی ہے تو وہ انہیں عید کا چاند نظر آتی ہے۔ صرف یہی نہیں بے شمار جوانان فلسطین بھی مار کھاتے ہوئے تشدد سہتے ہوئے گرفتار ہوتے وقت مسکرا رہے تھے۔ ان کی یہ مسکراہٹ ہمارے بے ضمیر حکمرانوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے۔ گویا وہ بزبان حال کہہ رہے تھے۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران ان مجاہد بیٹوں اور بیٹیوں کی اس مسکراہٹ پر ان کی مدد کو بڑھتے ہیں یا بے حسی کے ساتھ سر جھکا لیتے ہیں۔
٭٭……٭٭
مودی کی پالیسیوںکی بدولت بھارت تباہی سے دوچار ہوگا: شیوسینا
لو جی اب تو وہ بھی مودی سے بیزار نظر آنے لگے ہیں جو اس بھوت کو انسانی بستیوں میں لانے کے ذمہ دار تھے۔ اب یہ انسان دشمن مودی جو پالیسیاں بنائے گا، وہ ظاہر ہے بھارت کو تباہی کی طرف ہی لے جائیں گی۔ اس وقت بھارت کو اس مودی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے اور انتہاپسند مذہبی جنونیوں کو خوش کرنے کی خواہش نے کرونا کے ہاتھوں شمشان گھاٹ بنا دیا۔ کروڑوں لوگ کرونا کا شکار ہیں۔ لاکھوں مر چکے ہیں۔ پوری دنیا پریشان ہے مگر بھارتی وزیراعظم پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ وہ نیرو کی طرح چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ مخالفین کو رگیدنے کی خواہش میں بنا کسی حفاظتی انتظام کے جلسے کرتا رہا ہے۔ اگرچہ اس کے باوجود اس کی خواہش دل میں ہی رہ گئی اور 5 میں سے چار صوبوں میں بی جے پی کو شرمناک شکست ہوئی۔ مسلم اقلیتوں پر مظالم اور کشمیریوں کی نسل کشی پر پوری دنیا مودی سرکار کو لعنت ملامت کر رہی ہے مگر مودی کانوں میں انگلیاں ٹھونسے ہوئے ہے۔ اب خود مودی کو چائے کی دکان سے اٹھا کر دہلی دربار تک پہنچانے والی اس کی مربی جماعت شیوسینا بھی مودی سے تنگ آئی لگتی ہے۔ لگتا ہے مودی اب شیوسینا کی بھی نہیں سنتا۔ وہ بی جے پی کے بل بوتے پر ناچنے لگا ہے۔ اس پر شیوسینا والے اب اسکے کس بل نکالنے کی سوچ رہے ہیں اور بھارت کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار مودی کو ٹھہرا رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں شیوسینا کا لے پالک یہ مودی بالک اس تنقید کا کیا اثر لیتا ہے۔ دنیا کی لعن طعن کا تو اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔