ہماری معاشرتی بے اعتدالیاں
ہمارا ایک مسلمان معاشرہ ہے اور مسلمانوں کو حکم ہے کہ اسلام کیمطابق زندگی گزاریں۔ اسلام زندگی میں پاکیزگی اور نیکی سکھاتا ہے۔یہ ہر برائی سے سختی سے منع کرتا ہے۔ اسلام میں ہر شخص یعنی مردوں کے ،بوڑھوں کے ،خواتین کے اور بچوں کے علیحدہ علیحدہ فرائض ہیں اور یہ فرائض ایسے ہیں جو انسان کو نیکیوں اور معاشرتی اچھائیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ آجکل ہمارا پہلا مسئلہ عورتوں کا کردار ہے۔ اسلام تو عورتوں کیلئے حیا،شرم خدمت اور پردے کا حکم دیتا ہے۔ ایسی خواتین گھر کو جنت بنا دیتی ہیں۔مگر بد قسمتی سے جیسے جیسے مغربی معاشرے سے رابطہ بڑھ رہا ہے اتنے ہی مغربی معاشرے کے اثرات بھی بڑھ رہے ہیں جبکہ ہمارا معاشرہ اور مغربی معاشرہ دو متضاد اقدار والے معاشرے ہیں۔ اب بد قسمتی سے ہماری نوجوان خواتین مغربی معاشرے والی آزادی چاہتی ہیں۔ انکا نعرہ ہے ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ اسکا مطلب ہے ایسی آزادی جو انہیں ہر برا سے برا کام کرنے کی اجازت دے۔یہ گھر کا کردار بھی بدلنا چاہتی ہیں یعنی ہانڈی روٹی کا کام بھی مرد خود کرے اور مرد کا کسی قسم کا کنٹرول اور اسلامی اقدار کی پابندی بھی یکسر ختم کرنا چاہتی ہیں۔ سوچا جا سکتا ہے کہ اگر ایسا معاشرہ خدانخواستہ معرض وجود میں آگیا تو یہ زندگی جہنم بن جائیگی۔
ہمارا دوسرا مسئلہ منشیات کا بڑھتا ہوا رحجان ہے خصوصاً نوجوان نسل میں۔بھلا ہو ہمارے افغان بھائیوں کا انہوں نے اسلحہ اور نشہ تحفے کے طور پر پاکستان میں عام کر دئیے ہیں۔ قسم قسم کا اسلحہ اور قسم قسم کا نشہ پاکستان کے ہر حصے میں عام مل رہے ہیں۔ بد قسمتی سے نشہ تو اب سکولوں تک پہنچ گیا ہے۔ اب تو تقریباً ہر سکول کے باہر خالص نشے کی پڑیاں یا بچوں کے کھانے والی چیزوں میں ملا نشہ عام ملتا ہے۔لڑکیوں کے سکول بھی ان سے محفوظ نہیں۔جس حساب سے نشہ ہمارے معاشرے میں بڑھ رہا ہے۔ خدانخواستہ چینیوں کی طرح ہمارا معاشرہ بھی نشئی نہ بن جائے۔نشے کی لت میں پھنسے اچھے بھلے کڑیل نوجوان بیکار ہوتے جا رہے ہیں۔اور یہ بہت بڑی قومی بد قسمتی ہے۔موجودہ دور کی ویسے تو بہت سی خوبیاں ہیں لیکن ایک اہم خوبی جس نے پوری نوجوان نسل کو متاثر کیا ہے وہ مو بائیل کا استعمال ہے۔ یہ ایسی منحوس ایجاد ہے جس نے ہر شخص کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔غریب سے غریب آدمی روٹی کھائے بغیر تو گزارہ کر سکتا ہے لیکن مو بائیل میں بیلنس کے بغیر گزارہ نہیں کر سکتا۔ یہ ایسی نا مراد چیز ہے کہ گاڑی، موٹر سائیکل یا بائیسکل چلاتے ہوئے بھی لوگوں نے موبائیل کانوں سے لگائے ہوتے ہیں جس سے ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ لوگ مرتے ہیں لیکن پھر بھی اسکے بے جا استعمال سے باز نہیں آتے ۔اسکے استعمال کا سب سے تکلیف دہ پہلو اس میں اخلاق سوز مواد ہے جس کی نوجوان نسل دن بہ دن عادی ہو رہی ہے اور ان کا کردار بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔اس سے معاشرے میں جنسی درندگی اور معاشرتی بد معاشی بڑھ گئی ہیں۔ بد معاش اور بد کردار لوگوں نے اسے بلیک میلنگ کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے جس سے اچھے بھلے شریف خاندان بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ موجودہ دور کی ایک اور اہم ایجاد کمپیوٹر ہے۔گو یہ ایک بہت کا ر آمد ایجاد ہے جس سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ دفاتر اور ریسرچ اداروں کیلئے بہت ہی کار آمد ایجاد ہے۔ مو بائیل کی طرح اس نے بھی موجودہ دور کی انسانی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔شاید ہی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ ہو جو اس سے متاثر نہیں ہوا۔جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ۔کمپیوٹر ہمارے طرز حیات پر حاوی ہو رہا ہے۔اسکے بے شمار فوائد اپنی جگہ مگر اسکے منفی اثرات شاید اس کی اچھائیوں سے بہت زیادہ ہیں ۔کمپیوٹر کا سب سے زیادہ قابل تعریف اور قابل مذمت بھی اسکا انٹر نیٹ فنکشن ہے جس نے نوجوان نسل کو اس حد تک مصروف کر دیا ہے کہ انکے پاس گھر اور ماں باپ کیلئے بھی وقت نہیں۔ نیٹ پر بیٹھ بیٹھ کر انکی روزمرہ کی زندگی ساکن ہو کر رہ گئی ہے جس سے ہمارے کھیل کے میدان با لکل اجڑ گئے ہیں اور ہسپتال دن بہ دن بھرتے جا رہے۔سارا سارا دن اور ساری ساری رات نوجوان نیٹ پر گزار دیتے ہیں جس سے نوجوان کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ پھر کمپیوٹر پر ایسی ایسی گیمز آگئی ہیں جس سے نوجوانوں میں خود کشی کا رحجان پیدا ہو جاتا ہے۔ ان گیمز کے نتیجے میں ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ نوجوانوں نے نہ صرف خود کشی کی بلکہ گھر والوں کو بھی قتل کر دیا۔ یہ ایک خطرناک ایجاد ہے جو خطرناک انداز میں استعمال ہو رہی ہے۔ ایک اور معاشرتی بد تمیزی احساس ذمہ داری کا نہ ہونا ہے ۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکومت جو بھی چیز بناتی ہے وہ عوام کے پیسے ہی سے بناتی ہے۔ با دیگر الفاظ یہ ہمارا ہی پیسہ ہے اس لئے اسکا جائزاور مناسب بر وقت استعمال ضروری ہے۔ میری مراد بجلی اور پانی ہیں۔ دونوں چیزوں کی ملک میں بہت کمی ہے لیکن ہماری لاپرواہی کا یہ حال ہے کہ اکثر بجلی سارا سارا دن سڑکوں پر چلتی رہتی ہے۔ اسی طرح پانی بھی جہاں کہیں سرکاری ٹوٹی لگی ہوئی خراب ہے سارا سارا دن پانی چلتا رہتا ہے ۔گلیوں میں تالاب بن جاتے ہیں مگر کوئی ٹوٹی بند کرنے یا گلی یا سڑک کی لائٹ آف کرنے کی زحمت نہیں کرتا ۔اگر غلطی سے کسی کو کہا جائے تو وہ الٹا ناراض ہوتا ہے۔ ذمہ دار سینئر آفیسرز ویسے ہی ایسی چیزوں کی پرواہ نہیں کرتے اور یوں قوم کا بے مقصد نقصان ہوتا رہتا ہے۔جہاں تک مو بائیل اور انٹر نیٹ کا تعلق ہے دونوں چیزیں نوجوان نسل کی کردار کشی کررہی ہیں ساتھ ہی انہیں سست اور کاہل بنا رہی ہیں بلکہ نوجوان نسل مفلوج ہو رہی ہے جسکا کسی نہ کسی صورت میں تدارک ہونا چاہیے۔