وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ بار بار سنتا ہوں پاکستان نے بھارت سے بات چیت شروع کردی ہے آج واضح کرتا ہوں جب تک مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت پانچ اگست دو ہزار انیس کے اقدامات واپس نہیں لیتا اس سے کوئی بات نہیں ہو گی۔ اس سے پہلے وزیر خارجہ نے بھارت کے ساتھ بات چیت کے حوالے مبہم بات چیت کی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ حل کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ گوکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھارت کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات سے انکار کر رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے حقیقت یہی ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کر رہے ہیں اور یہ بات چیت اچھی سطح پر اور اچھے ماحول میں ہوئی ہے۔ بھارت کی طرف سے بھی مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے۔ دوسری طرف سے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک نے تمام مسائل پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔ بھارت پر واضح کیا گیا ہے کہ ہر قسم کے مسائل اور تنازعات پر بات ہو سکتی، مسائل حل بھی ہو سکتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کی جائے۔ سو یہ کہنا کہ بات چیت نہیں ہوئی نامناسب ہے۔ بات چیت ہوئی ہے اور اچھی ہوئی ہے۔ پاکستان خطے میں موجود تمام اہم ممالک کو یہ باور کروا چکا ہے کہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوں گے لیکن جنگ سے بچنا فریقین کی ذمہ داری ہے۔ یکطرفہ کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جنگ پر مجبور نہ کیا جائے لیکن امن برقرار رکھنے کے لیے کھلے دل سے بنیادی مسائل پر بات چیت کا آغاز کیا جائے۔ بھارت نے اس بات چیت میں سنجیدگی دکھائی ہے یقیناً حکومتی سطح پر کچھ معاملات بہتر انداز میں نہیں چلائے گئے جس وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں پھر باتیں میڈیا میں بھی آئی ہیں اس بحث یا اس قسم کی معلومات کا ایک مقصد بات چیت کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔ اعلیٰ حکومتی شخصیات کو یہ علم ضرور ہونا چاہیے کہ اس سطح اور اہم نوعیت کے معاملات پر کیا گفتگو کرنی ہے اور کیا موقف اختیار کرنا ہے۔ حکومت کی سطح پر ان معاملات میں شفافیت، واضح موقف اور دلیل کا سہارا لیا جانا چاہیے۔ جذباتی بیانات کے بجائے حقائق عوام کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ معلومات کہاں سے لیک ہو رہی ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں اگر اس پہلو پر کام کیا جائے تو بہتر جواب دیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ "بڑے ڈاکو یعنی ملک کے سربراہ جب چوری کر کے قوم کو تباہ کر دیتے ہیں، شہباز شریف پر ایک کیس 700 ارب کی منی لانڈرنگ کا ہے اور وہ باہر بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کیسز بھی ہیں۔ کبھی کسی کو این آر او نہیں دوں گا مجھے صرف اللہ کا خوف ہے، اللہ کو جواب دہ ہوں، یہاں لوگ جیلوں میں سڑرہے ہیں اور ہم انہیں چھوڑ دیں۔
ایک جمہوری لیڈر نواز شریف نے ڈنڈوں سے ججز پر حملہ کیا یہ کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھانے والے مافیاز ہیں۔ یہ قانون کی بالادستی نہیں چاہتے۔ ہم عدلیہ کے نظام میں مداخلت نہیں کرتے ہم قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، ہم سٹیٹس کو اور مافیاز سے لڑ رہے ہیں۔ آپ کو مافیازسے جیت کر دکھاؤں گا"۔
مافیاز کو نہیں چھوڑنا چاہیے یہ کسی بھی جماعت سے ہوں، کسی بھی اہم عہدے پر ہوں کتنے ہی مضبوط و طاقتور کیوں نہ ہوں کسی کو معافی نہیں ملنی چاہیے۔ حکومت شہباز شریف کو باہر نہیں جانے دینا چاہتی نہ جانے دے لیکن کیا یہ ضروری نہیں کہ ایسے تمام کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بھی سائنسی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ کیونکہ پارلیمانی نظام حکومت میں عوام کو تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ لوگوں کو حق حاصل ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنا حکمران منتخب کریں پھر وزیراعظم عمران خان کو یہ پہلو بھی دیکھنا چاہیے کہ اگر وہ عوام سے ساتھ کھڑے رہنے کی اپیل کر رہے ہیں تو پھر خود وزیراعظم اور ان کی حکومت بھی تو عوام کے ساتھ کھڑی ہو۔ مافیاز کا مقابلہ کرتے کرتے حکومت اس کا تو ابھی کچھ بگاڑ نہیں سکی لیکن عام آدمی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ عام آدمی کی بھی خواہش ہے کہ ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے لیکن اب عام آدمی کی یہ خواہش بھی دم توڑ رہی ہے کیونکہ اس کا اپنا سانس لینا مشکل ہو چکا ہے۔ وزیراعظم مافیاز کو پکڑتے پکڑتے عوام سے اتنے دور نکل گئے ہیں کہ پونے تین سال میں عام آدمی کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی ہے۔ جس نے ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اسے تو پکڑیں لیکن جو عام آدمی کی گردن دبوچ رکھی ہے اس کا بھی تو بندوبست کریں۔ عام آدمی یہ نہیں کہت کہ چوروں کو چھوڑ دیں لیکن وہ یہ تقاضا ضرور کرتا ہے کہ اسے جینے کا حق دیں۔ وزراء آج تک عوام کے لیے آسانی پیدا نہیں کر سکے۔ وزراء کے محکمے تبدیل ہوتے ہیں یا انہیں وزارتوں سے الگ کیا جاتا ہے لیکن جنہیں نکالا جاتا ہے وہ واپس عہدوں پر نظر آنے لگتے ہیں۔ کبھی غیر منتخب یا غیر سیاسی افراد کا دور آتا ہے تو کبھی منتخب افراد نظر آنا شروع ہوتے ہیں اوپر کی سطح پر تبدیلی آتی رہتی ہے لیکن جنہوں نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا ان کی زندگی میں کوئی بہتر تبدیلی نہیں آ سکی۔ حالات بد سے بدتر ہوئے ہیں۔ اب تو بہت وقت گذر چکا ہے جس مافیاز کا ذکر کیا جاتا ہے انہیں نشان عبرت بنانے کے ساتھ ساتھ عوام سے کیے گئے وعدوں کو نبھانے کا وقت ہے۔ گوکہ اب کوئی بھی وعدہ نبھانا بہت مشکل ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی جمہوریت چونکہ عوام کی حکمرانی کا نام ہے اس لیے عوامی مسائل حل ہونے کی امید ضرور کی جانی چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024