آجکل اخبار اُٹھائیں تو دو خبریں نمایاں نظر آتی ہیں۔ کرونا اور کرکٹ! کرونا ایک ایسی موذی وبا ہے جس نے ساری انسانیت کو آکاس بیل کی طرح اپنے زرد شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ وہ سُپرپاورز جنہوں نے اربوں ڈالر خرچ کر کے اور برس ہا برس کی محنت ، عرق ریزی اور تپسّیا کے بعد ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار بنائے ہیں سو ضرور سوچتے ہونگے کہ اس قدر تگ و دو اور زرکثیر خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی ! یہ کام تو چند ٹکوں کے عوض کسی لیبارٹری میں ایک حقیر کیڑا پیدا کرنے سے کیا جا سکتا تھا۔
ایٹم بم تو وجود کو عدم وجودکرتا ہے یہ ’’ہتھیار‘‘ وجود تو قائم رکھتا ہے، بس آدمی عدم آباد پہنچ جاتا ہے۔ کچھ یوںگمان ہوتا ہے کہ دُکھ ، درد اور رنج و غم نے مجسم شکل اختیار کر لی ہے۔ انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں۔ کوئی نعش اُٹھانے والا نہیں۔ کوئی دفنانے والا نہیں۔ مرزا نے درست ہی کہا تھا۔
؎قاطع عمار ہیں اکثر نجوم
یہ بلائے آسمانی اور ہے
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اپنے محبوب حکمرانوں کو بے اختیار داد دینی پڑتی ہے…اُن پر گھبراہٹ کے کوئی آثار نہیں۔ قوم کو بھی وقتاً فوقتاً اسی روش کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ان کی خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ اب تو دوسرے ممالک کے حاکموں کو بھی بھاشن دینا شروع کر دیا ہے۔ کبھی ٹرمپ کو فون کر کے کہتے ہیں ، گھبرانا نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں تو کبھی طیبّ اردگان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ جن دنوں چین بیماری کے ہاتھوں بے بس نظر آتا تھا تو اسے بھی ایک آدھ ’’تھاپڑا‘‘ مار دیا تھا۔
انکی دلیری کا یہ عالم ہے کہ اس نازک موقع پر اٹھارویں ترمیم کا قضیہ چھیڑ دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس حکومت کو سادہ اکثریت رکھنے کیلئے بھی بھان متی کا کنبہ جوڑنا پڑتا ہے وہ دوتہائی اکثریت کہاں سے لائے گی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارویں ترمیم بندر بانٹ تھی۔ میاں نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بننا تھا اور زرداری کو سندھ پر اپنا تسلط قائم رکھنا تھا۔ وہ جیسی بھی تھی اب (FAIT ACCOMPLI) (حقیقت) بن چکی ہے۔ مرکز کے استدلال پر اختلاف نہیںکیا جا سکتا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کی وجہ سے ’’ریونیوز‘‘ کا 57% حصہ صوبوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ اسکے پاس کچھ نہیں بچتا۔ لیکن جب بھی کوئی (CRISIS) آتا ہے، موردالزام اسے ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے وزیر خارجہ نے ایک نئی تحویل پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں، اٹھارویں ترمیم میں کوئی حرج نہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اسکی روح پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں! قریشی صاحب ہمیشہ دُور کی کوڑی لاتے ہیں۔ چونکہ خود پیر بھی ہیں۔ ایک بہت بڑی درگاہ کے متولی ہیں اس لیے انکے کلام میں تھوڑا بہت تصوف بھی ہوتا ہے۔ روح اور مادے کا تعلق بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
عام آدمی حیران ہوتا ہے کہ دوتہائی اکثریت کے نہ ہوتے ہوئے اور جبکہ حکومت اور اپوزیشن کی مخاصمت اپنی آخری حدوں کو چُھو رہی ہے اس قسم کا مطالبہ کیوں کیا گیا ہے؟ کیا حکمرانوں کی عقل گھاس چرنے گئی ہے یا (THERE IS A METHOD IN MADNESS) تجزیہ نگار کھوج لگا رہے ہیں یا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے! کچھ سیاسی لال بجھکڑوں کا خیال ہے، سر آئنہ میرا عکس ہے ، پسِ آئنہ کوئی اور ہے! ہمہ مقتدر طاقتیں جنہیں بہرحال اس ملک کا مفاد عزیز ہے اور جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو بھنور سے نکالا ہے ا ب بھی کوئی نہ کوئی قابلِ عمل حل تلاش کر لیں گی؟…حل کوئی بھی ہو اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہو گا۔ معروضی حالات اس کے متقاضی ہیں، دیکھیں گُنبد نیلوفری سے اُچھلتا ہے کیا!
اب رہا سوال یہ کہ کرونا اور کرکٹ کا آپس میں کیا تعلق ہے کیونکہ بظاہر ’’ک‘‘ کے ان میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے اس کا سیدھا سادا جواب تو یہ ہے کہ جہاں پر کوئی کورونا سے ڈر رہا ہے، ہمارے کرکٹ کے مدار لمہام نہ تو اس سے ڈر رہے ہیں نہ لڑ رہے ہیں۔ صرف ناراض ہیں! اس واہیات بیماری نے انکے شب و روز کو متاثر کیا ہے۔ وہ دن کس قدر سہانے تھے جب ان کا ہر روز عید ہوتا تھا اور ہر شب ، شبِ برأت ! ملک ملک کی سیر ، سرکاری خرچ پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام ، کہاں عیش و عشرت ، ناز و نخوت کا جہان چارسُو اور کہاں اب۔ سوز و ساز و درود داغ و جستجو و آرزو…بڑی مشکل سے انہوں نے PSL کا ڈھونگ رچایا تھا۔ میڈیا کے ذریعے (HYPE CREATE) کر کے ساری قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ کرکٹ پر گیت لکھوائے گئے تھے۔ ’’سٹی بجے گی ، کھیل جمے گا مزہ آئیگا !‘‘ بے تکی شاعری ، وزن سے گرے ہوئے اشعار MOROSE ، موسیقی ، باہر سے پلیئرز بھی بلائے تو تھکے ہوئے چلے ہوئے کارتوس ، یہ کھلاڑی جنہیں کسی زمانے میں عمران خان نے ’’ریلو کٹے‘‘ کہا تھا۔ اب خان صاحب نہیں بولتے۔ یہ تلخ گھونٹ انہیں بھرنا پڑ گیا ہے۔ انکی خاطر لاہور اور کراچی جیسے بڑے بڑے شہروں کا لاک ڈائون کرنا پڑا۔
اب جبکہ ملک وبا سے لڑ رہا ہے۔ شہری پریشان ہیں اور گھروں تک محدود ہو گئے ہیں تو کرکٹ بورڈ کو گڑے مُردے اکھاڑنے کی سُوجھی ہے۔ مسلم ملک کو 30/35 برس بعد اقبالِ جرم کا کہا گیا ہے۔ وہ اعتراف کرے گا کہ وہ میچ فکسنگ میں ملوث تھا۔ شاید چند دیگر کھلاڑیوں کا نام بھی لے۔ جسٹس قیوم کمیشن کی روشنی میں کچھ پلیئرز کو سزا مل چکی ہے اور اس مرحلہ پر ان کا کیس دوبارہ نہیںکھولا جا سکتا۔ اسے قانون کی زبان میں (DOUBLE JEOPARDY) کہتے ہیں۔ پہلے تو جسٹس قیوم کی رپورٹ محل نظر ہے۔ جس شخص کا بطور منصف کردار مشکوک ہو اور جس نے اپنے عمل کی پاداش میں استعفیٰ دیا ہو اس کی رپورٹ پر کس طر اورکیونکر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ مصطفی زیدی نے کیا خوب کہا تھا۔
حدیث ہے کہ اصولاً گنہگار نہ ہوں
گنہگار پہ پتھر سنبھالنے والے
خود اپنی آنکھ کے شتہیر پر نظر رکھیں
ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے
امر واقعہ یہ ہے کہ ’اس وقت‘ اس حمام میں کافی لوگ ننگے تھے۔ اس میں وہ بھی شامل تھے جنہیں آجکل معتبر سمجھا جاتا ہے اور قومی ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے اس جذباتی قوم کو بہت چونا لگایا۔ صرف بنگلہ دیش کے ساتھ میچ اور ہار نے ان لوگوں کو کروڑ پتی بنا دیا۔ سلیم ملک کا اپنا کردار مشکوک رہا۔ وہ کافی سزا بھی کاٹ چکا ہے۔ ایسے شخص کی گواہی قانون کی نگاہ میں کیسے مؤثر ہو سکتی ہے؟ بورڈ کو چاہئے تھا کہ ان ابتلاء کے دنوں میں نیا شوشہ نہ چھوڑتا۔ ملک کی پہلے ہی بڑی بدنامی ہو چکی ہے۔ ان اختتامی جملوں میں عمر اکمل کا قصہ بھی سن لیں۔ وہ فارسی زبان کا محاورہ ’’سوم خطا‘‘ تو دہرانا نامناسب ہوگا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ شخص اور محمد آصف کبھی بھی سدھر نہیں سکیں گے۔ وہ بھی تین بار غلطی کا مرتکب ہوا اور اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اسکے متعلق بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے ’’سر آمد روزگارِ ایں فقیرے۔‘‘ اکمل برادران کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ کرکٹ یہ نہیں بلکہ ابا حضور کھیلتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ ایک ٹیلنٹ اس طرح ضائع ہو جائے۔ ویسے بھی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اس کی فارم روبہ زوال ہے۔ یہ کئی دفعہ پولیس کے ساتھ بھی الجھ چکا ہے۔ در توبہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ اسے چاہئے کہ اب کسی اور کاروبار پر توجہ دے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38