لاہور ہمیشہ کی طرح آج بھی سیاست کا مرکز ہے۔ سو سیاسی باتیں ہی زیادہ ہوتی ہیں مگر لاہور کی صرف ایک ہی رنگت نہیں۔ یہ ہفت رنگ ہے اور ان رنگوں میں ایک بہت مختلف ، محبوب اور من موہنا رنگ اس کی ادبی سرگرمیاں ہیں۔ یہ سرگرمیاں پاک ٹی ہائوس کا ٹی ہائوس پلاک، الحمرا ، ظفر علی خان ٹرسٹ پاکستان رائٹرز گلڈ سے لے کر مختلف ادب دوستوں کی مختلف مقامات پر نجی محفلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان ادبی محفلوں کو زندہ رکھنے میں لاہور کے ایسے بہت سے قلم کاروں کا بڑا کردار ہے جو مستقل مزاجی سے کام کئے جا رہے ہیں۔ نہ شہرت کی تمنا نہ صلے کی خواہش ان کامنشور ہے ۔ ایسے ہی کرداروں میں ایک اہم نام ایم زیڈ کنول کا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تعلیم کے شعبے میں نمایاں کام اور مصروفیت کے باوجود جنہوں نے ادب کو اپنا اوڑھنا، بچھونا بنا رکھا ہے۔ جگنو انٹرنیشنل کے تحت ان کے ادبی پروگرام لاہور کی ایک اہم باقاعدہ سرگرمی قرار پائے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے حوالے سے جلسے، مشاعرے بھی ان کی سرگرمیوں کا اہم حصہ ہیں۔ حال ہی میں ان کی شاعری کی دو اہم کتابیں ’’قوس قزح کی زنجیریں‘‘ اور ’’برف کا آتش فشاں‘‘ سامنے آئی ہیں جو انسانی مسائل، دکھ سکھ اور جذبوں کی مختلف صورتوں کے مشاہدے کے حوالے سے ان کی باریک بینی کی شاہد ہیں۔ ایم زیڈ کنول کو پاکستان بھر کے مختلف شہروں کی علمی ادبی تنظیموں کی طرف سے ان کے کام پر اتنے ایوارڈ دئیے گئے ہیں جن کا پھیلائو ان کی کتابوں کے تین چار صفحات پر پھیلا ہے۔ ادب، کھیل، مباحثے ، تقریبات، بین المذاہب ہم آہنگی غرض کوئی فیلڈ ایسی نہیں جس میں ایم زیڈ کنول نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کرایوارڈ تمغے اور اسناد حاصل نہیں کیں۔ پھر انہوں نے بہ تحسین و آفرین صرف اردو کے حوالے سے ہی حاصل نہیں کی بلکہ انگریزی میں بھی بہت کام کیا۔ شائع شدہ کتابوں کے ساتھ ساتھ کئی کتابیں پائپ لائن میں ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مایوسیوں میں گھرے ہوئے کسی بھی معاشرے کو باقی رکھنے اور امید کے ساتھ جوڑے رکھنے میں ایسے کرداروں کا ہی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں۔
ڈوب کر ابھرے ہیں جو پاتال سے
وہ نہیں ڈرتے گھڑے کی چال سے
غم کا چہرا نکھارنے کے لیے
اپنی ہستی سنوارنے کے لیے
دوستی ظلمتوں سے کرنا پڑی
من کی دنیا اجالنے کے لیے
انسان ہمت کرے تو سب کچھ ممکن ہے۔ یہ کہنا ہے اس لکھاری کا جس کا ایک عمر مختلف ادبی سماجی تنظیموں کی سربراہی کرتے گزری ہے۔ گوجرانوالہ کے زمانہ طالب علمی کی لیڈر شپ سے آج ایک اہم تدریسی اور تعلیم عہدے تک مسرت زہرا کنول یا ایم زیڈ کنول نے نسل نو کے لیے اپنی ذات کی صورت ایک ہی سبق فراہم کیا ہے کہ حالات سے گھبرا کر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انسان کو جدوجہد سے معاشرے میں مقام ملتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ انہوں نے بے شمار ایوارڈ لئے مگر وہ بیٹھ نہیں گئیں۔ اس وقت بھی وہ درسی تدریس کے ساتھ ساتھ ترجماں ادب کی سیکرٹری جنرل، مجلس حمایت کشمیر کی سیکرٹری جنرل، بزم خواتین اقبال کی ایگزیکٹو ممبر، ینگ موومنٹ فار نالج کی صدر، سپاہ کی چیئرپرسن ، سہ ماہی جگنو کی مدیرہ اور جگنو انٹرنیشنل کے زیراہتمام ہر مہینے ادبی تقریب بھی کرواتی ہیں اور ہر جمعہ کی شب پنج ریڈیو امریکہ سے جگنو آن لائن مشاعرہ کا اہتمام کرواتی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ایم زیڈ کنول جیسے کردار ادب کے وہ ’’گمنام‘‘ سپاہی ہوتے ہیں جنہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب کی تاریخ سے نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ خود لکھتی ہیں:
میں اپنے آپ کو رکھ کر
کہیں پر بھول آئی ہوں
کہاں ڈھونڈوں اُسے جا کر
پتہ مجھ کو نہیں ملتا
سمند ذات میں کھوجوں
سرا تب بھی نہیں ملتا
سنا ہے گمشدہ چیزیں
جہاں کھوئیں وہیں پر ہی
کسی بستی میں ملتی ہیں
کسے بتلائوں یہ نکتہ
کہ جا کر کہکشائوں میں مجھے ڈھونڈے
مجھے کھوجے ۔ پھر آ کے مجھ کو بتلائے
میں سر کے بل کنول جا کر
وجود اپنا اٹھا لائوں
حریم دل سجا آئوں
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024