اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا حالیہ دورہ پاکستان دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بہتری میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے کے دوران نہ صرف تجارت، توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون پر بات ہوئی ہے بلکہ ایک دوسرے کے تحفظات ، خدشات دور کرنے اور سرحدی بندوبست میں باہمی تعاون بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔یہ دورہ ایسے موقع پر ہوا ہے کہ جب نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بڑی تیزی سے ایسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن سے باوجود کوشش کے دونوں ممالک (پاکستان اور ایران) لاتعلق نہیں رہ سکتے اور یہ تبدیلیاں دونوں ممالک کے تعلقات کے مستقبل کو بھی براہ راست متاثر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جن میں مشرق وسطیٰ بالخصوص شام سے متعلق پاکستان کی پالیسی، شام کے ائیربیسز پر امریکہ کے بعد اسرائیل کے فضائی حملوں پر دونوں ممالک کا موقف، افغانستان میں امریکی پالیسی پہ تحفظات میں یکسانیت، خطے میں پائیدار قیام امن اور ترقی کیلئے روس و چین سے تعاون کی پالیسی ، افغانستان میں سب سے بڑے غیر جوہری بم حملے کے بعد کی صورت حال اورپاکستان کی ایران کو یقین دہانی کے باوجود سعودی عسکری اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور جنرل راحیل کی صورت میں اسکی کمانڈ اینڈ سٹرکچر کی تعمیر کی ذمہ داری پہ ایرانی تحفظات اور سب سے اہم ایسے گروہوں کی فعالیت جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی خلیج پید ا کرنے کیلئے سرگرم ہیں(۔ایران کے صوبہ سیستان میں سرحدی محافظوں پر جیش العدل کے دہشت گردوں کے حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تناو محسوس کیا جارہا تھا ، جس کے اثرات کا درک کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے وفد کے ہمراہ اس دورے کا بروقت اور احسن فیصلہ کیاہے۔ ویسے کسی بھی ملک کیلئے تمام ہمسایوں کے ساتھ دشمنی کم فہمی پر مبنی سفارتکاری کی علامت ہے۔
پاکستان کی سرحدیں جن چار ہمسایہ ممالک سے ملتی ہیں، ان میں سے ایک دنیا کی دوسری بڑی آباد ی یعنی بھارت ہے ،کہ جسکے ساتھ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پاکستان کی جانب سے امن و اچھے تعلقات کی تمام ترتجاویز و کوششوں کو بھارت بری طرح مسترد کرتا آرہاہے ۔ اس ہمسائے کے ساتھ ہم دو بڑی جنگیں اور متعدد ذیلی جھڑپیں لڑ چکے ہیں۔ بھارت امریکہ سٹر یٹجک پارٹنر شپ قائم ہونے کے بعد بھارتی رویے میں جارحیت اور رعونت میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ بھارت کے کشمیر میں ظلم و ستم اور ہماری سرحدوں پر آئے دن گولہ باری ہمہ وقت خطرے کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ دوسراپڑوسی ملک افغانستان ، کہ جس کے ساتھ ہمارے تاریخی ، ثقافتی، مذہبی، خاندانی تعلقات ہیں۔ افغانستان شروع سے ہی بھارت کے زیر اثر رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد افغانستان وہ واحد ملک تھا کہ جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی ۔ گرچہ افغانستان نے پاکستان کیلئے روز اول سے ہی مسائل اور پریشانیوں کا بندوبست کیا ، مگر جب بھی افغانستان پہ مشکل وقت آیا۔ پاکستان نے ہر لحاظ سے اس کی مدد کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ اسکی آزادی ، اس آزادی کی بحالی، علاقائی سالمیت اور اسکے تحفظ کیلئے ہر قسم کا خطرہ مول لیا اور ہر لحاظ سے اسکی بھاری قیمت بھی چکائی اور تاحال چکا رہا ہے۔
دو ہمسایوں کے ساتھ اس نوع کے تعلقات کے بعد ہمارے لیے ضروری تھا کہ باقی دو ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار اور تعاون پر مبنی ہوں۔ اس مقصد کیلئے دونوں ممالک یعنی چین اور ایران کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور ابتدا میں ہی دونوں ممالک کے ساتھ اپنی سرحدیں متعین کرکے سرحدی معاہدات بھی کرلیے ۔1965ء کی جنگ میں دونوں ممالک یعنی چین اور ایران نے پاکستان کی کھل کر مدد کی۔ دونوں ممالک کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے اور تعلقات کے فروغ کی کوششیں کی ۔ چنانچہ چین یعنی دنیا کی سب سے بڑی انسانی آبادی ، سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور سب سے بڑی معاشی قوت کے ساتھ سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی پروان چڑھی اور لازوال اٹوٹ رشتے میں بدلتی چلی گئی۔
دوسرا ہمسایہ برادر ملک ایران کہ جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا اورتار،یخی، ثقافتی ، لسانی اعتبار سے ہمارے قریب ہے،اور ایران کیساتھ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے مختلف شعبوں میں تعاون کے وسیع تر مواقع بھی موجود ہیں،یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی قیادت بیرونی ایماء اور غیروں کی خوشنودی کیلئے ہمیشہ ہی ہچکچاہٹ کا شکار رہی۔ دوطرفہ تعاون کے زبانی کلامی دعوے ، وعدے تو تسلسل کے ساتھ ہوتے رہے مگر عملی طور پر ان تعلقات کو فروغ دینے کیلئے موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اسکے علاوہ علاقائی دشمنوں کی ریشہ دوانیاں دو طرفہ تعلقات و تعاون میںہمیشہ حائل رہی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ التواکا شکار ہوا، انتہائی ضرورت کے باوجود ایران سے بجلی کے حصول کا فیصلہ ہم نہیں کرپائے، حالانکہ ہماری بجلی، تیل و گیس کی ضروریات بھی ایران کے ذریعے پوری ہوسکتی ہیں اور متبادل ذرائع کے مقابلے میں انکی قیمت بھی انتہائی کم ہے۔ دو طرفہ تجارتی معاشی تعاون کے وسیع مواقع کے باوجود ان سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔بلوچستان کے معاملے پر دونوں ملک تحفظات کا شکار ہیں حالانکہ بیرونی قوتیں دونوں ممالک کے (بلوچستان) کیخلاف سرگرم ہیں جو دونوں کیلئے یکساں قابل تشویش ہے۔ ان تحفظات اور بیرونی سازشوں کے باوجود پاک ایران دوستانہ تعلقات کی تاریخ کو کسی طور نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
قیام پاکستان سے ہی پاک ایران تعلقات خوشگوار تھے۔ 1964ء میں پاکستان ، ایران اور ترکی نے آر سی ڈی (R.C.D)نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد رکن ممالک کے مابین تعلقات کا فروغ اور ترقی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر تھا۔ 1979ء آر سی ڈی ختم ہوئی مگر1985ء میںاسے ای سی او (ECO)کی صورت میںبحال کیاگیا اور 1992ء میں روس سے آزاد ہونیوالے 6اسلامی ممالک اور افغانستان کو اس میں شامل کیا گیااور تین سے بڑھ کر دس ممالک کی تنظیم بن گئی، جس کا مرکزی دفتر ایران میںہی رہا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی پاکستان آمد سے قبل اسی تنظیم کا سربراہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔تو اس میں ایران کے صدر سید حسن روحانی نے بنفس نفیس شرکت فرمائی، حالانکہ دو ماہ قبل انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کے دوران انہوں نے پاک وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دورہ ایران کی دعوت بھی دی تھی۔ یہ دعوت تاحال زیر التواء ہے۔ سی پیک پاک چین دوستی کا ایک فقید المثال مظہر ہے۔ سی پیک جب سے منظر عام پر آیا ہے نہ صرف ہمسایہ اور وسطی ایشیائی ممالک بلکہ مغربی ایشیا کے ممالک سے لیکر یورپ کے کئی ممالک اس منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایران بھی اسی سی پیک میں شامل ہونا چاہتا ہے ۔ پاکستان کو ہر صورت ایران کو خوش آمدید کہنا چاہیئے۔ اس حوالے سے دو طرفہ تعاون عین ملکی مفاد میں ہے۔ دوسری جانب ایران اور روس ملکر داعش جیسی خطرناک تنظیم کیخلاف بھرپورعسکری کارروائی کررہے ہیں۔ ایران کی طرح روس بھی سی پیک میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ روس گوادر کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کے خواب کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ چین ، روس ، ایران پاکستان باہمی تعاون سے پورے علاقے میں استحکام پیدا کرسکتے ہیں اور اسی تعاون کے ذریعے ہی یہ ممالک افغانستان کے حالات کو بھی کسی حد تک سنبھالا دے سکتے ہیں۔بھارت نہ صرف سی بیک کیخلاف متحرک ہے بلکہ افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشتگردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے اور ساتھ ہی خطے کے ممالک بالخصوص پاک ایران تعلقات کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ پاکستان ،ایران، چین ،روس کے باہمی تعاون سے ان سازشوں کا بھی سدباب کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی دنیا کی اکلوتی جوہری قوت ہونے کے ناطے اسلامی ملکوں کے مابین فاصلوں کے مٹانے کیلئے پاکستان کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ ماضی میں بھی پاکستان نے کیا ہے ۔ 1997ء میں جب اسلامی ممالک کا ہنگامی سیشن پاکستان میں ہوا تو پاکستان نے اس وقت کے ایران صدر ہاشمی رفسنجانی اور سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ (جو بعد میںشاہ بنے )کی انتہائی خوشگوار ماحول میں ملاقات کا اہتمام کرایا۔ اس ملاقات کا اثر پوری اسلامی دنیا میں محسوس کیا گیا اور فضا خوشگوار رہی۔ پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے ، جسے دوبارہ بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ بشرطیکہ ہم طرفین کا اعتبار جیت پائیں۔ سعودی عر ب اور خلیجی ممالک کے ساتھ خلوص اور اعتبار کے جو رشتے قائم ہیں ۔ ایران کے ساتھ ویسے ہی تعلقات اور رشتوں کی ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا میں کلیدی کردار اداکرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان تمام اسلامی ملکوں کے ساتھ برادرانہ اور پراعتماد تعلقات بحال رکھے اور انکے باہمی اختلافات میں غیر جانبدار رہ کر مثبت کردار ادا کرے۔ اس طرح دنیا میں بالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص پاکستان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا۔ انشاء اللہ
(مضمون نگار وزارت خارجہ پاکستان کے سابق سیکرٹری جنرل ہیں اور متعدد پالیسی و تحقیقی اداروں سے منسلک ہیں)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38