مغرب کی سامراجی تہذیب کا ایک طریق کار ہے اس تہذیب کے علمبردار جب کوئی ٹارگٹ مقرر کرتے ہیں تو اسے حاصل کرنے کیلئے پریس اور پرنٹ میڈیا میں زبردست مہم چلاتے ہیں ویسی ہی مہم جیسی اس سامراجی میڈیا میں کئی سال سے ہمارے ایٹمی اثاثوں کے لاوارث ہونے کے بارے میں چلائی جا رہی ہے اب اس پرانی مہم کو نئے انداز میں منظم کیا جا رہا ہے اور امریکہ کے وائٹ ہائوس کے بلیک مکیں سے لے کر اور عام جہلا تک سب ہی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس مہم کا مقصد کسی سے پوشیدہ نہیں اور اس کو سازگار بنانے میں ہمارے اپنے مہربانوں کا بھی کردار ہے وہ جو ہمارے وردی شاہ صاحب ہوا کرتے تھے ان کا بھی حصہ ہے اور این آر او جمہوریت کا بھی وہ حالات جن کی وجہ سے ان اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا پراپیگنڈہ شروع کرنے کا جواز تلاش کر لیا گیا تھا ان وردی شاہ صاحب کے اندھا دھند تعاون نے پیدا کئے تھے اور امریکہ کی طرف سے ہمارے ان اثاثوں کی مشترکہ دیکھ بھال کا مطالبہ ان ہی کے دور میں پیش کیا گیا تھا۔ ایٹمی اثاثوں کی دیکھ بھال کرنے والی کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں پاکستانی سربراہ اتھارٹی کے ساتھ والے کمرے میں ایک امریکی جرنیل بٹھانے کے اس منصوبے کے لئے ایک نئی عمارت تعمیر کرنے کے لئے امداد کی بھی پیشکش کی گئی تھی وردی شاہ نے عمارت تو شاید شروع کرا دی تھی۔ مگر امریکی جرنیل کے شایان شان انتظامات ہونے تک ان کا استقبال کرنے کا معاملہ ٹالتے آ رہے تھے کہ این آر او ہو گیا تھا ہماری قوم اور اس کے عزیز از جان ان اثاثوں کو این آر او کے دورہ کی شدت کے مراحل میں اس کی اصل مالک آنجہانی ہو گئی ملک میں عام انتخابات ہونا تھے وہ بھی کرا دئیے گئے این آر او جمہوریت کے وردود مسعود کے بعد این آر او کرانے والوں کے مطالبے پر ان اثاثوں کی دیکھ بھال کرنے والے پاکستانی ماہرین اور نگرانوں کی تعداد کم کر دی گئی تھی ایک طرف ان اثاثوں کو انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ جانے کے خطرے کا پرچار کیا جا رہا تھا اور دوسری طرف ان کی نگرانی کرنے والے ماہرین کی تعداد کم کروا دی گئی تھی۔ کیوں اتفاق ہو گیا تھا اس پر؟ جمہوریت جو آ گئی تھی اس لئے؟ اب سنتے ہیں کہ ان اثاثوں کی دیکھ بھال کے نئے منصوبے پر نئے انداز میں مذاکرات ہو رہے ہیں اور وہ پرانی ڈیمانڈ نئے انداز میں پیش کر دی گئی ہے وردی شاہ کے دور میں ہمارے ہاں سے افزودہ یورینیم امریکہ لے جا کر تباہ کر دینے کی کوئی تجویز کبھی نہیں آئی تھی تو کیا یہ تجویز یا منصوبہ بھی بارک حسین اوباما کی حکومت کی طرف سے ہماری جمہوریت کی سرپرستی کا حصہ ہے؟ یا اس ہماری جمہوریت کے این آر اوکے مالک و مختار کی مجبوریوں کا نتیجہ ہے؟ ہمارے صدر مکرم کے دورہ تعاون و خوشحالی کے دوران ہی ایسے سروے بھی کرائے گئے تھے ہمارے ایٹمی اثاثوں کے محفوظ یا غیر محفوظ ہونے کے بارے میں امریکی یعنی اوباما کے ووٹروں کی رائے کے سروے اور امریکی میڈیا نے ہمارے صدر مکرم کو بتایا تھا کہ ان کے میزبان مہربان اور قدردان کے 87 فیصد ووٹر ہمارے ان اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی تشویش میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ پاکستان کو دی جانے والی امداد کی شرطوں میں وزن پیدا کرنے کے لئے 14 اپریل کو ہلیری کلنٹن کے محکمہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’’امریکہ کے ٹیکس دہندگان چاہتے ہیں کہ ان کی رقوم کا صحیح استعمال ہو۔ مطلب یہ تھا کہ ہم کیا کریں پیسے تو ٹیکس دینے والوں کے ہیں اور ان کا مطالبہ تو ہم مسترد نہیں کر سکتے تو کیا یہ سروے بھی اسی لئے نہیں تھا کہ ہم کیا کریں ہمارے تو ووٹر بھی تمہارے اثاثوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔ اور اوباما کے فکرمند ووٹروں کی فکرمندی کی بنیادوں کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پیشرو بش کے ووٹروں کی اس سے بھی بڑی تعداد صدام حسین کے ایٹمی اور کیمیائی اثاثوں کے بارے میں ایسی ہی پریشانیوں میں مبتلا ہوا کرتی تھی۔ ملے ہیں وہاں سے کوئی ایسے ہتھیار؟ کی ہے ان ہتھیاروں کے بارے میں فکرمند امریکی ووٹروں نے اپنی جہالت پر کبھی کوئی شرم محسوس؟ جس ملک کے صدر‘ وزیر دفاع‘ انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کو اپنی اس جہالت اور جھوٹ پر کبھی شرم محسوس نہیں ہوئی اس کے بالغ ووٹر اپنی جہالت پر شرم محسوس کریں؟ ان کے لئے اس سے بڑی شرم کی کوئی بات ہو سکتی ہے؟ اب پڑھتے ہیں کہ یہ بھی مطالبہ آ گیا ہے کہ پوری تفصیل سے بتائو کہ تمہارے موبائل اور نصب شدہ ایٹمی ہتھیار کہاں کہاں ہیں؟ کیا اس لئے کہ اسرائیل اور بھارت کی ایجنسیوں اور ایجنٹوں کو ان سب ہتھیاروں کے محل وقوع اور لانے لے جانے کے راستوں کے بارے میں بتا دیا جائے اور ان سے کوئی کارروائی ڈلوا کر اپنا مقصد حاصل کر لیا جائے؟ یا ان پر کوئی کارروائی کرنے کے لئے اسرائیل اور بھارت کو ٹھیک ٹھیک معلومات میسر آ جائیں؟ کیا ماضی میں وہ ایسی مشترکہ منصوبہ بندی اور کوشش کر نہیں چکے؟ یہ سب حربے اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی منظم مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد واحد مسلمان ملک کو اس کے ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا ہے اس مہم میں وائٹ ہائوس کے بلیک مکیں سے برطانیہ کے پادری زادہ وزیراعظم‘ بھارت کی را اور اسرائیل کی موساد تک سب شامل ہیں۔ کیا ایک مسلمان ملک کو یا سارے مسلمانوں کو ایسے اثاثوں سے محروم کرنے کی سازش میں کوئی مسلمان بھی دانستہ یا غیر دانستہ شامل ہو سکتا ہے؟ یہ سب ان لوگوں کے سوچنے کی بات ہے جو دانستہ یا غیر دانستہ حرکتوں سے اس پراپیگنڈہ میں اور اس سازش میں وزن پیدا کرنے کا سبب اور جواز بن رہے ہیں۔ بارک حسین اوباما نے ہمارے صدر مکرم کو پاس کھڑے کر کے اعلان کیا تھا کہ امریکہ پاکستان کے جمہوری اداروں کی حمایت کرتا ہے۔ ان کی وزیر خارجہ نے ہمارے صدر مکرم کو بتایا تھا کہ ’’اوباما حکومت پاکستان کی سول حکومت کو مضبوط بنانے کی ہرممکن کوشش جاری رکھے گی‘‘ یہ پراپیگنڈہ یہ حربے اور مطالبات پاکستان کی جمہوری حکومت اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کی مہم ہے یا انہیں رخصت کرنے کی سازش؟ پاکستان کی کوئی بھی حکومت اور حکمران جو اس مہم کی کامیابی کی راہ ہموار کرے گا وہ اپنی ذات اپنی حکومت اور اپنے ملک کے خلاف سازش میں حصہ لے گا پاکستانی قوم نے خون پسینے کی کمائی سے جو اثاثے بنائے ہیں وہ اپنے خون کے آخری قطرہ تک ان کی حفاظت بھی کرے گی۔ انشاء اللہ !
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38