اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + مانیٹرنگ نیوز) سپریم کورٹ نے طیارہ سازش کیس میں سنائی گئی سزا کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وفاق کو نوٹس جاری کر دئیے جبکہ وفاق کے نمائندے کی جانب سے نظرثانی کی درخواستوں سے قبل طیارہ سازش کیس پر فیصلہ سنانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کو نہ بتائیں کہ اسے کیا کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے نوازشریف کی انتخابی اہلیت اور طیارہ سازش کیس میں سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ بنچ جسٹس تصدق حسین جیلانی‘ جسٹس ناصر الملک‘ جسٹس موسیٰ کے لغاری‘ جسٹس شیخ حاکم علی اور جسٹس غلام ربانی پر مشتمل تھا۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ محمد حارث نے دلائل شروع کئے تو عدالت نے اپیل کے زائد المیعاد ہونے کا معاملہ اٹھایا جس پر خواجہ محمد حارث نے کہا کہ ان کے موکل کا عدلیہ کے حوالے سے اصولی مؤقف تھا کہ وہ 3 نومبر 2007ء کے مارشل لاء کے ذریعے وجود میں آنیوالی عدلیہ کو آئینی تسلیم نہیں کرتے۔ اسی لئے وہ پی سی او عدلیہ کے سامنے پیش ہوئے نہ اپیل دائر کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب جانے کے حوالے سے معاہدہ تحریری نہیں تھا نہ ہی ان کے مؤکل کو اس کی شرائط کا علم تھا۔ ان کو بیرون ملک بھجوانے کے بعد معاہدہ سامنے آیا جبکہ طیارہ سازش کیس میں سزا بھی ان کی عدم موجودگی میں سنائی گئی۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعظم کو ہنگامی صورتحال میں سِول ایوی ایشن قواعد کے تحت طیارے کا رخ موڑنے کا اختیار حاصل ہے۔ نوازشریف نے اس اختیار کے تحت طیارے کا رخ موڑا تھا‘ اسے ہائی جیک نہیں کیا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ نوازشریف کی سزا معاف کردی گئی تھی مگر سزا کا ہونا بھی ان پر ایک داغ ہے جسے وہ ختم کرانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طیارہ سازش کیس میں سزا کا سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ متفقہ نہیں بلکہ منقسم تھا اور ایک جج نے تو یہاں تک لکھا تھا کہ یہ ہائی جیکنگ کا کیس بنتا ہی نہیں۔ خواجہ حارث کے بعد وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل آغا طارق نے کہا کہ عدالت نظرثانی اپیلوں سے قبل طیارہ سازش کیس کا فیصلہ کرے تاہم عدالت نے اس بات کو یہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیا کہ نوازشریف کی نااہلی کی وجہ طیارہ سازش کیس کی سزا نہیں۔ بعدازاں عدالت نے نظرثانی اپیلوں کی سماعت شروع کی جس میں نوازشریف کے وکیل عابد حسن منٹو نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ نے نوازشریف کو تین بنیادوں پر نااہل قرار دیا تھا، ایک انہیں نیب ریفرنس میں سزا ہوئی، دوم انہوں نے عدلیہ کو بدنام کیا اور سوم وہ بنک نادہندہ ہیں۔ ان کے دلائل جاری تھے کہ سماعت آج منگل تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔ مانیٹرنگ نیوز کے مطابق خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طیارہ سازش کیس میں اپیل بروقت دائر اس لئے نہیں کی جاسکی کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مختصر وقت میں نوازشریف کو ملک بدر کر دیا گیا اور انہوں نے دو بار ملک میں آنے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ دلائل کے بعد رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دئیے گئے اور نوازشریف کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے اس پر وفاق کو نوٹس جاری کر دیا۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ آرٹیکل 45 کے تحت صدر نے سزا معاف کردی جس کے بعد نوازشریف کو حکام کے سامنے سرنڈر ہونے کی ضرورت نہیں۔ رجسٹرار آفس نے اپیل پر اعتراض لگا یا تھا کہ قوانین کے تحت پہلے ملزم کو اتھارٹیز کے سامنے سرنڈر کرنا ضروری ہے اور یہ کہ اپیل میعاد گزر جانے کے بعد داخل کی گئی ہے‘ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ صدر نے نوازشریف کی سزا معاف کر دی تھی اس لئے سرنڈر کرنا ضروری نہیں ہے جس پر عدالت نے ان کی درخواست منظور کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سات میں سے 6 ملزمان کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا اور ان کے بیانات پر نواز شریف کو سزا دی گئی اور دیگر چھ ملزمان کو بری کر دیا گیا۔
طیارہ سازش کیس
طیارہ سازش کیس