خاتون لب و لہجے اور انداز بیان سے بہت مدبر اور شائستہ محسوس ہوتی تھیں مگر بہت غصے میں تھیں‘ جیسے فی الواقع وہ کسی گہرے صدمے کی کیفیت سے گزر رہی ہوں۔ ہمیں کم و بیش روزانہ ایسی ٹیلی فون کالز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو زیادہ تر ملک و ملت اور شعائر اسلامی کے حوالے سے دل گرفتگی کا باعث بننے والی کسی خبر سے متعلق ہوتی ہیں۔ یہ خاتون بھی بہت دل گرفتہ نظر آتی تھیں۔ ’’آج آپ نے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کا بیان تو پڑھا ہو گا‘‘۔ جی دیکھا ہے۔ ’’پھر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ بیان چیف جسٹس کے منصب پر فائز شخصیت کے شایان شان ہے اور وہ بھی اس چیف جسٹس کے جس نے اپنے کردار و عمل کی وجہ سے پوری قوم کے دل جیتے ہوئے ہیں اور انصاف کی عملداری کے عزم کے اظہار میں چاردانگ عالم میں اپنی دھاک بٹھائی ہوئی ہے‘‘۔ چیف جسٹس کا بیان پڑھ کر خود میں صدمے کی کیفیت میں تھا اور میرا رومانٹسزم لرزہ براندام ہو رہا تھا اس لئے خاتون کی اس ٹیلی فون کال پر مجھے اپنا دل مٹھی میں بند ہوتا ہوا نظر آیا اور ’’دلوں کا حَبس زیادہ ہَوا کے بعد ہوا‘‘ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ ’’اگر چیف جسٹس پاکستان شریعت کی متعینہ سزائوں کے بارے میں نام نہاد روشن خیالوں کی مغرب زدہ زبان میں تبصرے کریں گے‘ تو پھر ہم اور کس کی زبان رو ک سکیں گے؟‘‘ میں نے خاتون کو اپنے جذبات کے اظہار سے روکنا مناسب نہ سمجھا کہ میرے اپنے بھی یہی جذبات تھے۔ سانگھڑ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے دوران اگر چیف جسٹس پاکستان کسی خاتون کو سرعام کوڑنے مارنے کی جعلی ویڈیو فلم سے متاثر ہو کر سرعام یہ بیان دے رہے ہوں کہ خاتون کو سرعام کوڑے مارنے کے نظام کو کون قبول کر سکتا ہے اور اسے کیسے مہذب اور تعلیم یافتہ نظام کہا جا سکتا ہے تو ان کی سوچ اور اسلام کو دہشت گردی اور دور جاہلیت کا نظام ثابت کرنے پر تلی ہوئی اسلام دشمن مغربی صہیونی طاغوتی طاقتوں کی سوچ میں بھلا کیا فرق رہ جاتا ہے۔ بطور مسلمان ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ شریعت میں متعینہ حدود اللہ کی سزائوں میں رائی برابر کا ردوبدل کرنا بھی کسی انسان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا چہ جائیکہ ان سزائوں اور سزا کے طریقہ کار کو تضحیک کا نشانہ بنایا جائے جبکہ بدکاری کا جرم ثابت ہونے پر شادی شدہ خاتون کو سنگسار کرنے اور باقرہ خاتون کو کوڑے مارنے کی سزا شریعت میں متعین ہے جس کا مغرب زدہ نام نہاد مہذب اور تعلیم یافتہ نظام سے موازنہ کرکے اس پر کسی قسم کا تبصرہ چیف جسٹس تو کجا‘ کسی عام فہم مسلمان کی زبان پر بھی زیب نہیں دیتا۔ میں خود حیران ہوں کہ چیف جسٹس پاکستان نے خاتون کو کوڑے مارنے کی ایک عالمی تشہیر شدہ ویڈیو فلم کی بنیاد پر محض سنی سنائی باتوں پر تکیہ کرتے ہوئے شریعت کی ایک متعینہ سزا کے بارے میں ایک دم یہ فیصلہ کیسے صادر کر دیا کہ یہ نظام کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے نظام کی قبولیت کیلئے اپنے کسی بندے کے مرہون منت تو نہیں ہو سکتے اور کسی بندے میں یہ جرأت اور مجال کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ خدا کے نظام کو چیلنج کرے۔
جب خاتون کو سرعام کوڑے مارنے کی فلم مغربی میڈیا کے ذریعے ہمارے میڈیا تک آئی تو اس کے جعلی ہونے کے شواہد بھی اس کے ساتھ ہی موجود تھے اور اس فلم کی تشہیر کے مقاصد بھی عیاں تھے۔ چنانچہ جب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کوڑے مارنے کے اس مبینہ وقوعہ کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا تو میں نے انہی سطور میں چیف جسٹس کے اس اقدام کی تائید کی کہ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔ فلم میں دکھائی گئی لڑکی اگر حقیقی ہے اور فی الواقع اسے کوڑے پڑے ہیں تو وہ عدالت میں پیش ہو کر ساری حقیقت بیان کردیگی۔ اگر فی الواقع اسے بدکاری کے جرم میں سرعام کوڑوں کی سزا ملی ہے تو شریعت کی اس متعینہ سزا پر بحث مباحثے کی کسے مجال ہے اور اگر محض اسلام اور شریعت کی سزائوں کو بدنام کرنے کیلئے جعلی ویڈیو فلم تیار کی گئی ہے تو اس ڈرامے کی قلعی بھی کھل جائیگی۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ یہ ویڈیو فلم جعلی ثابت ہوئی۔ ڈی سی او مالاکنڈ سے سرحد حکومت کے ذمہ داران تک سب نے اس مبینہ وقوعہ کی صحت سے انکار کیا۔ پھر چیف جسٹس پاکستان کو جنہوں نے خود اس معاملہ کا نوٹس لیا تھا‘ اس مبینہ وقوعہ کی بنیاد پر شریعت کی متعینہ سزائوں کے بارے میں ایسا تبصرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی جس سے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کی گھنائونی سازشوں کے تانے بانے بننے والے اسلام دشمن عناصر کے ڈھٹائی پر مبنی موقف کو بھی تقویت حاصل ہو۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بھی مولانا صوفی محمد کے ایک بیان کی بنیاد پر شریعت کی سزائوں پر کچھ ایسا ہی تبصرہ کر دیا تھا جس سے اسلامیان پاکستان کے جذبات مجروح ہوئے۔ اب چیف جسٹس پاکستان نے منصف اعلیٰ کی حیثیت سے شریعت کی سزائوں کے بارے میں متنازعہ بیان دے کر جس طرح اپنے عقیدت مندوں کے جذبات مجروح کئے ہیں‘ اس کا ازالہ کس طرح ممکن ہے؟ چیف جسٹس صاحب کو ہی اس کا احساس و ادراک ہونا چاہئے۔
جب خاتون کو سرعام کوڑے مارنے کی فلم مغربی میڈیا کے ذریعے ہمارے میڈیا تک آئی تو اس کے جعلی ہونے کے شواہد بھی اس کے ساتھ ہی موجود تھے اور اس فلم کی تشہیر کے مقاصد بھی عیاں تھے۔ چنانچہ جب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کوڑے مارنے کے اس مبینہ وقوعہ کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا تو میں نے انہی سطور میں چیف جسٹس کے اس اقدام کی تائید کی کہ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔ فلم میں دکھائی گئی لڑکی اگر حقیقی ہے اور فی الواقع اسے کوڑے پڑے ہیں تو وہ عدالت میں پیش ہو کر ساری حقیقت بیان کردیگی۔ اگر فی الواقع اسے بدکاری کے جرم میں سرعام کوڑوں کی سزا ملی ہے تو شریعت کی اس متعینہ سزا پر بحث مباحثے کی کسے مجال ہے اور اگر محض اسلام اور شریعت کی سزائوں کو بدنام کرنے کیلئے جعلی ویڈیو فلم تیار کی گئی ہے تو اس ڈرامے کی قلعی بھی کھل جائیگی۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ یہ ویڈیو فلم جعلی ثابت ہوئی۔ ڈی سی او مالاکنڈ سے سرحد حکومت کے ذمہ داران تک سب نے اس مبینہ وقوعہ کی صحت سے انکار کیا۔ پھر چیف جسٹس پاکستان کو جنہوں نے خود اس معاملہ کا نوٹس لیا تھا‘ اس مبینہ وقوعہ کی بنیاد پر شریعت کی متعینہ سزائوں کے بارے میں ایسا تبصرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی جس سے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کی گھنائونی سازشوں کے تانے بانے بننے والے اسلام دشمن عناصر کے ڈھٹائی پر مبنی موقف کو بھی تقویت حاصل ہو۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بھی مولانا صوفی محمد کے ایک بیان کی بنیاد پر شریعت کی سزائوں پر کچھ ایسا ہی تبصرہ کر دیا تھا جس سے اسلامیان پاکستان کے جذبات مجروح ہوئے۔ اب چیف جسٹس پاکستان نے منصف اعلیٰ کی حیثیت سے شریعت کی سزائوں کے بارے میں متنازعہ بیان دے کر جس طرح اپنے عقیدت مندوں کے جذبات مجروح کئے ہیں‘ اس کا ازالہ کس طرح ممکن ہے؟ چیف جسٹس صاحب کو ہی اس کا احساس و ادراک ہونا چاہئے۔