جنت نظیر سوات‘ خوبصورت پہاڑوں چناروں اور سدا بہار بہاروں کی دھرتی سوات جو کبھی امن و سکون اور سیرو سیاحت کا گہوارہ تھا۔ آج وہاں سے اس کے باشندے نقل مکانی کر رہے ہیں اور دلکش مناظر سے بارود کا دھواں اٹھ رہا ہے۔ مولانا صوفی محمد جس اسلحہ برداری کے خلاف تھے‘ اب وہاں اسلحہ ہی اسلحہ ہے اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ صوفی صاحب نے بغاوت کر دی ہے اگر صوفی محمد باغی تھے تو وہ تو نظام عدل ریگولیشن پر دستخط کیوں کرتے اور طالبان سے اسلحہ کیوں رکھواتے۔ وہ تو فوج کے راستہ آسان بنا رہے تھے مگر کسی کو ایسا منظور نہ تھا۔ مثال کے طور پر اگر یہ پتہ چل جائے کہ پاکستان کے فلاں شہر میں چند شدت پسند داخل ہو گئے ہیں تو کیا اس پورے شہر پر بمباری کی جائے گی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک بچے کو اپنی نانی سے بڑی محبت تھی نانی کی ناک پر مکھی بیٹھ گئی اس نے سوچا کہ مکھی کی یہ جرأت کہ میری نانی کی ناک پر بیٹھ جائے فوراً اپنے باپ کا پسٹل لیا اور مکھی کو مار دیا۔ مکھی کے ساتھ نانی بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستانی فوج کو اندرونی آپریشنز میں الجھا کر تھکا دیا جائے یہ ایک بالواسطہ جنگ ہے جو وہ ہماری فوج کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ادھر مشرقی سرحدوں پر بھارتی فوج تازہ دم فوجی مشقیں کر رہی ہے۔ ہمیں حیرانی ہے کہ ہماری فوج کی طرف سے ڈرون طیارے مانگے گئے ہیں کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہم اپنے لوگوں کو خود ماریں گے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب تک فاٹا میں ڈرون طیاروں نے سات سو شہری اور 9
شدت پسند مارے ہیں۔ سوات کے لاکھوں لوگ گھر سے بے گھر کر دئیے گئے ہیں وہ جس فوج کیلئے پلکیں بچھاتے اب وہی فوج ان پر کارپٹ بمبار منٹ کر رہی ہے۔ وزیراعظم کس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سیاستدانوں کو اعتماد میں لے کر آپریشن کا حکم دیا ہے۔ کیا سیاستدان 16 کروڑ عوام پر بھاری ہیں آخر پاکستان کے عوام کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔
امریکہ برملا یہ چاہتا ہے کہ پاکستانی عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرے۔ ان آپریشنز کا ایک مقصد یہ بھی ہے۔ کیا کبھی کسی قوم نے اپنے صحن کو بھی میدان جنگ بنایا ہے۔ کیا ہمارے ارباب بست و کشاد چاہے وہ عسکری ہوں یا سویلین نے یہ بھی سوچا ہے کہ امریکہ انہیں اندرون ملک اپنے لوگوں کو مروا کر ان سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ دھیرے دھیرے ہمارے افزودہ یورینیم تک تو آپہنچا ہے۔ اس سے پوچھنا چاہئے کیا اس نے اپنے افزودہ یورینیم کو تباہ کر لیا ہے جو ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے۔ ڈالرز کی لالچ ہمیں کہیں کا نہ رکھے گی۔ یہ ہوس ترک کر دینی چاہئے ہماری قوم کو ایسی مشروط امداد مسترد کر دینی چاہئے جس کے بدلے بھائی سے بھائی کو مروایا جاتا ہے۔ حتمی حل اس سارے قضیئے کا یہ ہے کہ حکومت پاکستان امریکہ کی یاری سے ہاتھ کھینچ لے۔ لاجسٹک سپورٹ بند کر دے اپنے ادارے اس سے واپس لے لے اور آئندہ کوئی ڈرون اندر آئے یا گن شپ ہیلی کاپٹر تو پاکستانی فضائیہ کو حرکت میں آجانا چاہئے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو امریکہ اس خطے میں بھارت کو مانیٹر لگا دے گا۔ ہمیں نہتا کر دے گا اور یہ بھی امکان ہے کہ پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دے تاکہ مسلمانوں کا یہ واحد ایٹمی قوت اور اسلام کا قلعہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ سوات ہمارے لئے ایک امتحان ہے۔ جس کو امریکہ نے ہم پر مسلط کیا ہے۔ ایک بڑی ریاست کے لاکھوں افراد کو کہاں اکاموڈیٹ کریں گے۔ ظاہر ہے جب وہاں کے رہنے والے پاکستانی فوج کو دیکھیں گے کہ وہ ان کے گھروں پر بمباری کر رہی تو اس کا ردعمل شدت پسندوں کے حق میں جائے‘ پٹھان دین کے معاملے میں ہمیشہ شدت پسند رہا ہے ہم نے اسے اس کا عیب بنا دیا ہے۔ وہ مرتا مر جائے گا مگر دینی شدت پسندی پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ رہ گئی یہ بات کہ طالبان لڑکیوں کے سکول ڈھا رہا ہے تو یہ کسی اور کی کارروائی ہے وہ صرف مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں اور اس کے خلاف تو پنجاب کے مسلمان بھی ہیں۔ ملا عمر کے دور حکومت میں لڑکیوں کیلئے سکول کھولے گئے تھے اور ان پر کوئی قدغن نہ تھی۔ البتہ باپردہ خواتین ہی کو وہ سکول و کالج جانے دیتے تھے اور یہی اسلام کا حکم ہے مگر یہ جو کچھ تشدد ان کے نام پر کیا جا رہا ہے یہ ان کا نہیں کسی اور کی کارستانی ہے۔
شدت پسند مارے ہیں۔ سوات کے لاکھوں لوگ گھر سے بے گھر کر دئیے گئے ہیں وہ جس فوج کیلئے پلکیں بچھاتے اب وہی فوج ان پر کارپٹ بمبار منٹ کر رہی ہے۔ وزیراعظم کس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سیاستدانوں کو اعتماد میں لے کر آپریشن کا حکم دیا ہے۔ کیا سیاستدان 16 کروڑ عوام پر بھاری ہیں آخر پاکستان کے عوام کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔
امریکہ برملا یہ چاہتا ہے کہ پاکستانی عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرے۔ ان آپریشنز کا ایک مقصد یہ بھی ہے۔ کیا کبھی کسی قوم نے اپنے صحن کو بھی میدان جنگ بنایا ہے۔ کیا ہمارے ارباب بست و کشاد چاہے وہ عسکری ہوں یا سویلین نے یہ بھی سوچا ہے کہ امریکہ انہیں اندرون ملک اپنے لوگوں کو مروا کر ان سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ دھیرے دھیرے ہمارے افزودہ یورینیم تک تو آپہنچا ہے۔ اس سے پوچھنا چاہئے کیا اس نے اپنے افزودہ یورینیم کو تباہ کر لیا ہے جو ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے۔ ڈالرز کی لالچ ہمیں کہیں کا نہ رکھے گی۔ یہ ہوس ترک کر دینی چاہئے ہماری قوم کو ایسی مشروط امداد مسترد کر دینی چاہئے جس کے بدلے بھائی سے بھائی کو مروایا جاتا ہے۔ حتمی حل اس سارے قضیئے کا یہ ہے کہ حکومت پاکستان امریکہ کی یاری سے ہاتھ کھینچ لے۔ لاجسٹک سپورٹ بند کر دے اپنے ادارے اس سے واپس لے لے اور آئندہ کوئی ڈرون اندر آئے یا گن شپ ہیلی کاپٹر تو پاکستانی فضائیہ کو حرکت میں آجانا چاہئے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو امریکہ اس خطے میں بھارت کو مانیٹر لگا دے گا۔ ہمیں نہتا کر دے گا اور یہ بھی امکان ہے کہ پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دے تاکہ مسلمانوں کا یہ واحد ایٹمی قوت اور اسلام کا قلعہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ سوات ہمارے لئے ایک امتحان ہے۔ جس کو امریکہ نے ہم پر مسلط کیا ہے۔ ایک بڑی ریاست کے لاکھوں افراد کو کہاں اکاموڈیٹ کریں گے۔ ظاہر ہے جب وہاں کے رہنے والے پاکستانی فوج کو دیکھیں گے کہ وہ ان کے گھروں پر بمباری کر رہی تو اس کا ردعمل شدت پسندوں کے حق میں جائے‘ پٹھان دین کے معاملے میں ہمیشہ شدت پسند رہا ہے ہم نے اسے اس کا عیب بنا دیا ہے۔ وہ مرتا مر جائے گا مگر دینی شدت پسندی پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ رہ گئی یہ بات کہ طالبان لڑکیوں کے سکول ڈھا رہا ہے تو یہ کسی اور کی کارروائی ہے وہ صرف مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں اور اس کے خلاف تو پنجاب کے مسلمان بھی ہیں۔ ملا عمر کے دور حکومت میں لڑکیوں کیلئے سکول کھولے گئے تھے اور ان پر کوئی قدغن نہ تھی۔ البتہ باپردہ خواتین ہی کو وہ سکول و کالج جانے دیتے تھے اور یہی اسلام کا حکم ہے مگر یہ جو کچھ تشدد ان کے نام پر کیا جا رہا ہے یہ ان کا نہیں کسی اور کی کارستانی ہے۔