مارکیٹوں میں مہنگائی کے جھکڑ، سرکاری سرپرستی جاری

Mar 12, 2025

 چوہدری فرحان شوکت ہنجرا 
ایک مرتبہ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا چینی مافیا کے وارے نیارے اور عوام بیچارے سستی چینی  سے محروم کر دیئے گئے۔پینا فلیکسوں میں  وزیر اعظم سے وزیر فوڈ سیکیورٹی کے چینی سستی کرنے کے بلند بانگ دعوے اور میڈیا  پر تشہیر  ضرور دکھائی دیتی رہی لیکن عوام کو چینی 130روپے کلو کے حساب سے نہیں مل سکی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی برآمد کرنے کیلئے واشگاف الفاظ میں حکومت اور سرکاری اداروں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ملک میں چینی کی قیمت فی کلو 140روپے سے ایک آنے کا بھی اضافہ نہیں ہوگا اب ملک کے مختلف حصوں میں چینی 170 سے 180 روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہے ۔جس پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ وہ نہیں بلکہ چینی مہنگی ہونے کے ذمہ دار چینی اسٹاکسٹ ذخیرہ اندوز اور سٹہ باز ہیں ۔
کیا یہ مکاری نہیں ؟ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ کا کہنا بالکل درست ہے کہ حکومت چینی مافیا کی سرپرست ہے پہلے چینی مافیا کو ایکسپورٹ کی اجازت کے بعد اب امپورٹ کے نوازشات کی جا رہی ہیں حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے سرکاری ادارے مہنگائی روکنے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھا سکے ہیں مارکیٹوں بازاروں میں مہنگائی کے جھکڑ چل رہے ہیں ناجائز منافع خوروں کو کھلی چھٹی ہے۔
وفاقی حکومت چینی درآمد کرنے کی اجازت دینے کو تیار وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق شکر درآمد کرنے کا فیصلہ چینی کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے کیا گیا "اسے کہتے ہیں نیا جال لائے پرانے شکاری"پہلے چینی برآمد کروائی اب چینی درآمد کریں گے اس لین دین میں سرکاری بابوؤں سیاسی اشرافیہ شوگر مافیا کے وارے نیارے ہو جائیں گے بیچارے عوام کو یہی طفل تسلیاں دی جائیں گی کہ ان کے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔چینی کی مہنگائی میں ذخیرہ اندوزی بھی ایک عامل ہے ،عوام سے اس کی نشاندہی کیلئے کہا جاتا ہے مگرحکومت سرکاری ادارے قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت خفیہ اداروں کے ہوتے ہوئے ذخیرہ اندوز ناجائز منافع خوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوسکے تو سمجھ جائیں دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے۔
ملک میں شوگر انڈسٹری پر سیاسی اثرورسوخ نمایاں ہے ۔ملک میں شوگر سیکٹر میں پہلے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہوتی تھی۔ جس  کی وجہ ارکان سمیت کئی سیاست دان شوگر ملز مالکان ہیں ۔ جب پنجاب سندھ میں حکمران فیملی ارکان اسمبلی اور سیاست دانوں کی شوگر ملیں ہونگی تو پھر شوگر سیکنڈل پر کون سی انکوائری اور کون بے نقاب ہوگا کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
دوسری طرف ملک میں گندم کاشت کرنے والے کاشتکار ایک مرتبہ پھر تذبذب کا شکار ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گندم کی سپورٹ پرائس کا اعلان نہیں کیا سیزن 2024 میں حکومت پنجاب کی جانب سے گندم کی سپورٹ پرائس مقرر اور کسانوں سے گندم خریدنے کے اعلان کے باوجود نہ تو کسانوں سے گندم خریدی اور نہ ہی کسانوں کو گندم کی مقرر کردہ قیمت 3900روپے فی من ملی بلکہ چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ کسان برباد ہو گئے اور حکمران کہتے رہے کہ عوام کو سستی روٹی دیں گے افسوس صد افسوس اور ان حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کا جنہوں نے کسانوں کے معاشی نقصان پر اپنی حکومت کو کچھ کہا نہ کوئی احتجاج کیا بلکہ حکومت پنجاب کے زراعت و کسان دشمن اقدامات پر اسے سپورٹ کیا۔ 
کسان حکومت کی جانب سے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق کھاد ڈیزل زرعی ادویات بیج سمیت دیگر پیداواری لوازم خریدنے پر مجبور ہے اسی طرح صارفین عام مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیاء پر قیمتیں لکھی ہوتی ہیں خریدتے ہیں جب کسان ہر چیز حکومت سرکاری اداروں کی جانب سے مقرر کردہ قیمتوں پر خریدتا ہے تو حکومت اس کی گندم کی قیمت کیوں مقرر کرنے سے گریزاں ہے۔یہ فوڈ سیکیورٹی کا معاملہ بھی اب آئی ایم ایف کی شرط کے تابع ہے حالانکہ ہر ملک کی حکومت یہ حق رکھتی ہے کہ کون سی فصل اس کی فوڈ سیکیورٹی ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور گندم کی سپورٹ پرائس کا اعلان کرے ۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کیمطابق اکتوبر 2024 اور فروری 2025۔ کے دوران اوسط سے کم بارشوں کی وجہ سے گندم کی فصل منفی اثرات سے دوچار ہے۔ پاکستان روائتی طور پر گندم برآمد کرنے والا ملک ہے لیکن گزشتہ 6 برس میں اسے غیر معمولی طور پر گندم درآمد کرنا پڑی ہے ۔کسان اتحاد پاکستان نے وزیراعظم کو خط لکھ کر  مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی قیمت 4200 روپے فی من مقرر کرکے اس کی خریداری یقینی بنائی جائے۔اس سال بھی حکومت نے کسانوں سے گندم نہ خریدی تو ملک میں غذائی تحفظ سنگین نتائج سے دوچار ہو سکتا ہے۔

مزیدخبریں