گریٹر گیم ان افغانستان

Mar 12, 2025

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کے زوال میں جن دو چیز وں نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا اْن میں سرفہرست مذہبی ، گروہی، لسانی یا سیاسی بنیادوں پر قوم کی تقسیم کا اْن انتہاؤں کو چھو جانا جہاں سوچوں اور عمل میں حوانیت انسانیت پر غالب آ جاتی ہے یا پھر اس قوم کی مرکزی قیادت کا کوئی ایک ایسا فیصلہ جسکا خمیازہ آئندہ انے والی کئی نسلوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔
 راقم جب بھی اپنی تحریروں میں لفظ’’ میرا’’ لکھتا ہے تو اس سے اسکی مراد ‘‘پاکستان ‘‘ ہوتا ہے کیونکہ میرے سکول آف تھاٹ کا ایک ہی سلوگن ہے کہ پاکستان ہے تو میں ہوں، پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ بات کا آغاز کرتے ہیں اس بدنصیبی کا جو 1947ء میں میرے جنم کے ساتھ ہی اس دن شروع ہوئی جب 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم نے اپنے پہلے خطاب میں مذہب اور ریاست دونوں کو علیحدہ علیحدہ فریم ورک میں رکھتے جن ترجیحات کا ذکر کیا ان میں تحریف کی کوششوں (جسکی تفصیل ضمیر نیازی کی کتاب ‘‘ The press in chains”‘‘ اور اس کتاب کے اردو ترجمہ ‘‘ صحافت پابند سلاسل’’ جو اجمل کمال نے مرتب کیا میں موجود ہے ) کا آغاز ہوا جو اس بات کا واضع ثبوت تھا کہ پہلے دن سے ہی پالیسی سازوں کا ایک مخصوص مائنڈ سیٹ بن چکا تھا کہ کس طرح مذہبی بنیادوں پر قائداعظم کی سوچ کے برعکس ایک مخصوص’’ متھ’’ کو ڈویلپ کیا جائیگا جو بعد ازاں ریاستی امور کی بجاآوری میں اسی طرح غالب ہو گی جسطرح سلطنت عثمانیہ کے آخری دنوں میں سلطنت کے تمام امور ‘‘خلافت ‘‘ سے زیادہ ‘‘ملائیت ‘‘ کے کنٹرول میں تھے لیکن کسے کیا خبر کہ وقت کا دھارا دو دھاری تلوار ہوتی ہے جانے کس کی گردن لے اْڑے۔ گْو کہ منصوبہ سازوں کے پلان کے مطابق گزرتے وقت کے ساتھ یہ متھ روز بروز زور پکڑتی گئی لیکن پھر ایک وقت وہ بھی آیا اور ہر آنکھ نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ اس متھ کے برین چائلڈرن ان تخلیق کاروں کے کنٹرول میں بھی نہ رہے اور مسلکی بنیادوں پر یہاں تقسیم در تقسیم کا ایک سلسلہ چل نکلا اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ فرقہ پرستی کے پجاری ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے اور انکے روئیوں نے شدت کی اْن انتہاؤں کو چھو لیا کہ پوری دنیا کے سامنے مملکت خدا داد پاکستان ایک تماشہ بن کر رہ گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ تقسیم ، یہ شدت پسندی اپنی جگہ پروان چڑھ رہی تھی کہ ایسے میں وقت کے ایک اور ستم کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 24 دسمبر 1979ء کو اس وقت کی سویت یونین نے افغانستان پر فوجی یلغار کر دی اور ہمارے ملک پر قابض ایک ڈکٹیٹر نے اپنے شخصی اقتدار میں طوالت کیلیئے پورے ملک کی قسمت داؤ پر لگاتے جہاد کے نام پر ایک ایسی مہم جوئی کی سرکاری سرپرستی شروع کر دی جو آج تک جہنم کی آگ کی طرح ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کہتے ہیں حقائق بڑے تلخ ہوتے ہیں اور انکی حقیقت سے انکار ناممکن ہوتا ہے۔ اس سباق یہ ماننا پڑیگا کہ اس مہم جوئی کے نتیجے میں ہم پرائی جنگ کے ساتھ ساتھ تیس چالیس لاکھ وہ لوگ بھی پاکستان لے ائے تاریخ میں جنکی حق نمک کی ادائیگی سوالیہ نشانوں سے بھری پڑی ہے اور جسے بعد میں انھوں نے اپنے عمل کے ذریعے سچ ثابت بھی کیا کہ شیخ سعدی جیسے دانشور نے بھی انکے بارے میں مخصوص ریمارکس کیوں دیے۔ نتیجتاً اس آبادکاری کے ذریعے ایک طرف ہم نے اپنے دو صوبوں میں مقامی آبادی کو بیروز گار کرنے کے ساتھ ایک طرف ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کو خوش امدید کہا تو دوسری طرف اسکے ساتھ ہی ایک ایسے کلچر کو فروغ دینے میں تمام وسائل جھونک دیے جس سے ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جس نے آج بھی ہمارا ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ ماضی کے بند جھرکوں میں جھانکیں تو اہل دانش کی نظر میں جب سویت یونین افغانستان چھوڑ رہا تھا تو ہمیں اس وقت ان افغانیوں کو انکے حال پر چھوڑ دینا چاہیئے تھا لیکن یہاں پھر پالیسی سازوں سے ایک غلطی سرزد ہوئی کہ انھوں نے اکوڑہ خٹک سے ایک ایسی فصل تیار کی اور پھر اْنھے افغانستان میں اتنا طاقتور بنایا کہ طاقت کے نشہ میں وہ خود ہی ماسٹر وائس بن گئے اور اپنے تخلیق کاروں اپنے محسنوں کو للکارنے لگے۔ بات اگر افغانستان کے اندرونی معاملات تک محدود رہیتی تو شاید قابل برداشت رہتی لیکن پھر صوفی محمد اور منگل باغ کے روپ میں سوات سے شروع ہو کر وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں اس گروہ نے جو شدت پسندانہ کاروائیاں شروع کیں اور حکومتی رٹ کو جس طرح چیلنج کیا یہ وہ مقام تھا جب پاکستان میں بیٹھے طاقتور کارویڈور میں یہ سوچ ابھری کہ enough is enough اب وہ وقت آ گیا ہے کہ انکے پر کاٹنے پڑینگے اور پھر ہر جاگتی آنکھ نے دیکھا کہ کس طرح ردالفساد اور ضرب عضب جیسی کاروائیوں کے ذریعے اس فتنہ کی سرکوبی کی گئی لیکن بات پھر وہی کہ جب مرکزی قیادت کوئی غلط فیصلہ کر دے تو پوری قوم اسکا خمیازہ بھگتی ہے یہی کچھ ایک دفعہ پھر اس وقت ہوا جب اس فتنہ الخوارج کو 2021ء میں عام معافی کے نام پر واپس انے دیا گیا اور آج انکی دہشتگرد سوچ اور عمل کا یہ عالم ہے کہ ہم آج پھر 2001 اور 2002ء والے مقام پر کھڑے نظر اتے ہیں لیکن پچھلے ایک دو ماہ سے کچھ ایسے واقعات کا تسلسل جن میں حقانی گروپ کے ایک وزیر کا افغانستان میں قتل اور اب اکوڑہ خٹک کے مدرسہ میں خودکش حملہ اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کا افغانستان پر حالیہ بیان اس بات کے اشارے دے رہے ہیں کہ افغانستان میں گریٹر گیم کے نام پر کچھ نیا ہونے والا ہے لہٰذا ضرورت اب اس امر کی ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز بھی بڑا سوچ سمجھ کر قدم اْٹھائیں اور ماضی میں جو غلطیاں سرزد ہوئیں ہیں انکا ازالہ کریں کیونکہ اس دفعہ غلطی گنجائش نشتہ، قوم آگے ہی بہت سزا بھگت چکی لیکن اسکے ساتھ قوم کی بھی یہ ذمداری بنتی ہے کہ وہ مذہبی جنونیت اور شخصیت پرستی کے بْت سے آزاد ہو کر اپنی افواج کا ساتھ دے جو پاکستان کی بقاء￿  کی جنگ لڑ رہی ہیں ورنہ یاد رہے فتنہ الخوارج کا یہ اڑدہا سب کو نگل جائیگا۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں