اتوار، 19 شعبان المعظم، 1444ھ، 12 مارچ 2023ئ

متحدہ عرب امارات میں سپر سٹورز پر 75 فیصد رعایتی رمضان پیکج ملے گا
اول تو ہر اسلامی ملک کا فرض ہے کہ وہ رمضان المبارک میں غریب عوام کے لئے ایسے پیکج کا اعلان کر کے 75 فیصد رعایت پر انہیں چیزیں فراہم کر کے رمضان کی برکات سمیٹے۔ دنیا کے بہت سے اسلامی ممالک میں ایسا ہوتا ہے۔ کچھ ممالک ہماری طرح ”گیارہ مہینے تہاڈے تے اک مہینہ ساڈا“ کے مصداق عوام کو برکات رمضان سے محروم کر کے سارے ثمرات مہنگائی وہ بھی مصنوعی پیدا کر کے خود سمیٹنے کے چکروں میں رہتے ہیں۔ ان ممالک میں ہم سرفہرست ہیں۔ اچھے کاموں میں اپنے شہریوں کو 75 فیصد رعایت دے کر اگر متحدہ عرب امارات لیڈنگ رول ادا کر رہا ہے وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے مگر افسوس ہمارے ہاں 75 فیصد قیمتیں بڑھا کر ہمارے تاجر‘ دکاندار‘ ملز اونر‘ ریڑھی والے‘ سب مل کر ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں گویا رمضان المبارک کے ثمرات و برکات بس وہی سمیٹیں، اپنی جیبیں بھریں اور پورے ملک کو برکات رمضان سے محروم رکھیں۔ رمضان ایثار کا مہینہ ہے۔ روزہ ایثار کا درس دیتا ہے مگر ہم نے اس مقدس ماہ کو لوٹ مار کا مہینہ بنا دیا ہے۔ ایک روپے کی چیز دس روپے میں کر دیتے ہیں۔ یوں کروڑوں پاکستانی سادہ روٹی اور پانی سے سحری کرتے اور روزہ افطار کرتے ہیں۔ یہ ٹی وی چینلز پر چلنے والے اشتہارات پر نہ جائیں۔ جن میں دستر خوان اور کھانے کی ٹیبل طرح طرح کے لوازمات سے بھری نظر آتی ہے۔ یہ اس طبقہ کی منظر کشی ہے جو شاید ہی روزہ رکھتا ہو۔ 90 فیصد لوگوں کے دستر خوان پر اگر ایک عدد پھل یا سموسہ بھی آ جائے تو وہ خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ دودھ سوڈا اور شربت تو اب ایک حسین خواب بن چکا ہے۔ یہ رمضان پکوان والی اشتہاری مہم صرف غریبوں کا دل جلاتی ہے۔
٭....٭....٭
ایتھوپین ائیر لائن یکم مئی سے پاکستان کیلئے فضائی سروس شروع کریگی
لگتا ہے ایتھوپیا جیسے ملک کو بھی اپنے دور کی نمبر ون ائیر لائن کہلانے والی فضائی کمپنی پی آئی اے کی زبوں حالی کا اندازہ ہو گیا ہے۔ جبھی تو اب اس کی اپنی ائر لائن پاکستان کیلئے فضائی آپریشن شروع کر رہی ہے یعنی اس کے طیارے دنیا کے مختلف ممالک سے پاکستان آیا جایا کریں گے۔ ایک لحاظ سے یہ اچھی خبر بھی ہے کہ اس طرح عالمی سطح پر دیگر ممالک کے بھی پاکستان سے فضائی رابطے بحال ہوں گے۔ ان کے رنگ برنگے جدید طیارے ہمارے ہوائی اڈوں پر اتریں گے۔ ان میں غیر ملکی مسافر ہمارے ہاں آئیں گے اور جائیں گے۔ یوں مسافروں کا آنا جانا لگا رہے گا۔ اس سے شاید ہماری قومی ائیر لائن کے کرتا دھرتا¶ں کو ہی کچھ احساس ہو جائے اور ایک مرتبہ پھر وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے ایمانداری سے مقابلے کی اس فضاءمیں شامل ہوکرسرخرو ہونے کی کوشش کریں مگر جب تک ہمارا شاہین (پی آئی اے) گرگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا رہے گا۔ اسے اپنی قوت پرواز کا اندازہ نہیں ہو گا۔ اس لئے پہلے تو پی آئی اے کو ان جونکوں اور مردار خور گدھوں سے نجات دلانا ہو گی تب کہیں جا کر ہماری ایئرلائن دنیا میں کامیاب ہو گی ورنہ اب کہیں یوگنڈا اور صومالیہ کی فضائی کمپنیاں بھی پی آئی اے کی جگہ لینے اور ایتھوپیا کے مقابلے میں ہمارے ہوائی اڈوں پر ڈیرے ڈالنے نہ پہنچ جائیں۔
٭....٭....٭
لاہور میلہ چراغاں‘ جشن بہاراں اور یوم ثقافت پر دلہن کی طرح سج گیا
اگرچہ میلوں ٹھیلوں کی روایات ہمارے ہاں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔ جدید طرز زندگی میں اب لوگوں کے پاس اتنا وقت کہاں رہ گیا ہے کہ وہ باغوں میں چوپالوں میں درسگاہوں میں کچھ دیر کے لئے بیٹھ کر قصہ گوئی‘ ہیر خوانی ‘ جگت بازی کے ماحول میں اپنا وقت ہنسی خوشی بسر کریں۔ اپنے سارے دکھ درد بھول کر ہنسیں مسکرائیں۔ یا پھر کھیلوں کے روایتی مقابلے کشتی‘ والی بال‘ نیزہ بازی‘ کبڈی‘ دوڑ کے دیکھنے جائیں۔ پنجاب تو تھا ہی میلوں اور تہواروں کے لئے مشہور۔ خاص طور پر دیہی زندگی میں میلوں کی بہت اہمیت تھی جبھی تو آج بھی ابرار الحق کا نغمہ ”اج میلہ ویکھن آئیاں کڑیاں شہر دیاں“ اکثر گونجتا ہوا ملتا ہے۔ اگر شہر لاہور جیسا باکمال اور بے مثال ہو تو بات ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ جہاں خود ہفتہ کے سات روز کہیں نہ کہیں کوئی میلہ لگا رہتا تھا۔ ان میں میلہ چراغاں اپنی مثال آپ دور دور سے لوگ یہ میلہ دیکھنے لاہور آتے تھے۔ پھر کچھ عناصر کی مہربانی سے یہ میلہ اپنی روایتی آب و تاب کھو گیا۔ اسکی جگہ ہارس اینڈ کیٹل شو نے لے لی۔ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ مگر وہ بات کہاں میلہ چراغاں والی گزشتہ کچھ دہائیوں سے پھر رنگ و روشنی کے اس میلے کو بھرپور اہمیت مل رہی ہے۔ پہلے شالامار کے در و دیوار جگمگاتے تھے۔ اب جشن بہاراں کی بدولت نہر کے دونوں اطراف بھی میلوں رنگ و روشنی میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مینار پاکستان‘ فورٹریس سٹیڈیم‘ ریس کورس پارک‘ مال روڈ اور جیل روڈ کے علاوہ گلبرگ کے چوک و چوراہے دلہن کی مانگ کی طرح سج جاتے ہیں۔ سجاوٹ ایسی ہوتی ہے گویاں پرستان سج گیا ہو۔ اب تو کلچر ڈے کی بدولت لاہور کے کالج سکول‘ یونیورسٹیاں بھی پنجاب کی میٹھی بولی بولتے اور ہفت رنگ میں بسی رنگین اوڑھنیوں‘ پیرہنوں‘ اونچ شملوں‘ کرتوں لاچوں اور کھسوں سے سج گھبرو جوانوں اور الڑ مٹیاروں کی وجہ سے لاہور کئی دن تک یونہی سجا بسا ہنستا مسکراتا رہے گا۔
٭....٭....٭
عمران خان کا عدلیہ بچا¶ تحریک کیلئے بارز سے رابطوں کا فیصلہ
اب تک شاید خود عمران خان کو بھی یاد نہیں ہو گا کہ وہ کون کون سی تحریک کب کب اور کہاں کہاں سے چلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ مگر اس میں سے ایک بھی تحریک ایسی نظر نہیں آتی جو غلطی سے بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہو۔ ابھی ایک تحریک شروع ہی نہیں ہوتی کہ اس کے خاتمے کے آثار ازخود نمایاں ہونے لگتے ہیں اور خان صاحب فوراً دوسری تحریک چلانے کی تیاریاں شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں۔ یوں یہ تمام تحریکیں ”نہ باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں“ کی بدولت خود بخود ختم ہو جاتیں یا منظر عام سے غائب ہو جاتی ہیں۔ معلوم نہیں یہ قسمت کی خرابی ہے یا حالات کی ستم ظریفی کہ مقبولیت کی انتہا پر کھڑا سیاسی رہنما اپنی آشفتہ مزاجی یا منقسم سوچ کی وجہ سے اپنی کسی بات پر قائم نہیں رہتا اور اسے ”یوٹرن“ کا نام دے کر اپنی سیاسی حکمت عملی قرار دیتا ہے۔ اب اگر کوئی ناکامیوں کو ہی اپنی کامیابی قرار دے تو اسے کیا کہا جا سکتا ہے۔ سیاسی رہنما¶ں کو ان کی ذاتی مقبولیت سے زیادہ ان کی مستحکم پالیسیاں کامیاب کراتی ہیں۔ یہ بات خان صاحب کی عقل شریف میں نہیں آ رہی۔ شاید ان کے حواری انہیں اسی مقبولیت کے زعم میں مبتلا رکھ کر سیاسی شہید بنانے کے چکروں میں ہیں تاکہ ان کا راستہ صاف ہو ....