ریٹائرمنٹ کے بعد ذاتی کام کیلئے ایک بلڈنگ کی تعمیر شروع کی۔میری بد قسمتی یا خوش قسمتی کہ مجھے مستری احمد بخش مل گیا ۔اس نے مجھے اتنے سبز باغ دکھائے کہ میں نے سارا ٹھیکہ اسے دے دیا۔اس نے بڑے زور و شور اور ایک مولانا صاحب سے تلاوت قرآن کے بعد کام کی ابتدا کی۔مجھے یقین دلایا کہ چھ ماہ میں کام مکمل ہو جائے گا ۔کام شروع کرنے کے بعد احمد بخش نے مجھے مستریوں والے ہاتھ دکھانے شروع کئے۔جھومتا ہوا نو بجے تشریف لاتا۔آتے ہی نزدیکی ہوٹل پر بیٹھ کر آرام سے چائے پیتا۔اپنے مزدوروں سمیت کھانے کی ایک لمبی بریک کرتا۔پھر ظہر اور عصر کی نمازوں کیلئے دو لمبی بریکیں لیتا۔پانچ بجے انکا کام ختم ہو جاتا لیکن چار بجے وہ کام ختم کرکے ہاتھ وغیرہ دھونا شروع کر دیتے تھے۔ میں اسے کافی سارے پیسے ایڈوانس دے چکا تھا ۔لہٰذا میں اسے نکال بھی نہیں سکتا تھا۔ کام کی رفتار دیکھ کر میں بہت کڑھتا مگر مستری صاحب کو کسی قسم کی پرواہ بھی نہ تھی۔ٹینشن کا مریض تو مجھے کار والے مستری نے بنا دیا تھا ۔باقی تکمیل احمد بخش صاحب نے کر دی۔میری ٹینشن اس حد تک بڑھ گئی کہ مجھے دل کا بائی پاس کرانا پڑا۔چھ ماہ میں تیار ہونیوالی بلڈنگ ڈیڑھ سال میں تیار ہوئی۔
میرادوسرا تجربہ ایک وکیل صاحب کے ساتھ ہوا۔ جنوری2010 میں مجھے ایک ذاتی مسئلہ پیش آیا جس کیلئے مجھے عدالت جانا پڑا۔ ایک جاننے والے وکیل سے مشورہ کیا ۔اس نے تسلی دی کہ معمولی سا کیس ہے تین ماہ میں ختم ہو جائیگا۔لہٰذا میں نے کیس دائر کردیا۔جیسے جیسے کیس آگے بڑھا کیس نے بچے دینے شروع کر دئیے۔حزب مخالف کے وکیل نے اس کیس کی بنیاد پر میرے خلاف کچھ اور کیسز بنا دئیے۔میں جب کیس کی پیشی کیلئے جاتا تو کبھی وکیل صاحب مصروف ہوتے کبھی جج صاحب مصروف ہوتے یا چھٹی پر ہوتے ۔کبھی وکیل کا منشی غائب ہوتا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ پوری فیس وصول کرنے کے باوجود ہر پیشی پر وکیل صاحب کسی نہ کسی بہانے سے کچھ نہ کچھ مجھ سے نکلوا لیتے۔انکا منشی تو ویسے ماہر تھا وہ بھی ہر پیشی پر سو دو سو نکلوا لیتا۔اب تاریخوں پر تاریخیں ملنا شروع ہوئیں۔حزب مخالف کا وکیل حاضر ہی نہ ہوتا۔ اسکا منشی آتا اور تاریخ لے کر چلا جاتا۔اب اس کیس کو دس سالوں سے اوپر ہو چکے ہیں۔یہ اب تک چل رہا ہے ۔اس کا خاتمہ کہیں نظر نہیں آتا۔بے پناہ وقت اور پیسہ ضائع ہوا ہے۔ٹینشن الگ۔مجھے شاید اب دوبارہ اپریشن کرانا پڑے ۔میں اس عدالتی کاروائی سے اتنا زچ ہوا ہوں کہ آائندہ کیلئے چاہے کوئی قتل کا وقوعہ ہی کیوں نہ ہو میں نے عدالتی کاروائیوں سے توبہ کرلی ہے۔
میرا اگلا تجربہ ڈاکٹروں کے ساتھ ہوا ۔گو میں دل اور شوگر کا مستقل مریض ہوں اور مجھے اکثر ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔مگر فوجی ڈاکٹروں کے پاس جو مجھے کم سے کم دوائیاں دیتے ہیں جن سے میں ٹھیک ہو جاتا ہوں۔مگر سول ڈاکٹروں کا تجربہ بہت تکلیف دہ ثابت ہوا ہے۔وہ اس طرح کہ چند ماہ پہلے میری اہلیہ کو بخار کی شکایت ہوئی ۔وہ65سال کی صحت مند خاتون تھیں۔میری دو بیٹیاں ڈاکٹرز ہیں۔جونہی اہلیہ نے بخار کی شکایت کی وہ اسے فوری طور پر الٹرا سائونڈ کیلئے لے گئیں تو پتہ چلا کہ انکی چھاتی میں بہت ہی معمولی سی’’ گلٹی‘‘ ہے جو ہم نے اپریشن کرا کر فوری نکلوا دی۔اب شک ہوا کہ کہیں کینسر کی ابتدا نہ ہو۔بیٹا میرا لاہور میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے وہ اسے چیک اپ کیلئے لاہور لے گیا ۔اس نے وہاں لاہور کے مشہور ہسپتال اور ڈاکٹرز سے چیک کرایا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ احتیاطاً اسکی کیمو تھراپی کرالی جائے جو ایک مشہور ہسپتال سے کرائی گئی اور وہ واپس آگئی۔وہ شوگر کی پرانی مریضہ تھی۔چند دن بعد صبح کے وقت اس کی شوگر کم ہو گئی اور وہ قومے میں چلی گئی۔بجائے سی ایم ایچ جانے کے میری بیٹیوں نے ضد کی اور اسے ایک بہت ہی مشہور پرائیویٹ ہسپتال لے گئیں۔ شوگر تو ان کی پہلے ہی انجیکشن سے ٹھیک ہو گئی مگر نجانے کیوں ڈاکٹروں نے اسے وہاں داخل کر لیا۔ساتھ ہی اسے ادویات کی ہیوی ڈوز دینی شروع کر دی اور ہر قسم کے ٹیسٹ علیحٰدہ۔دو دنوں بعد اسے ICUمیں شفٹ کر دیا۔اسے پائوں سے لے کر چہرے تک ادویات کی نالیاں ہی نالیاں لگا دی گئیں کہ دیکھ کر ہی خوف آتا تھا۔پھر ہر آدھے گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی ٹیسٹ۔ ICU میں غالباً چار ڈاکٹرز تھے۔ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی ڈاکٹر آتا معائنہ کرتا نئے ٹیسٹ اور نئی دوائی لکھ دیتا۔ وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ کیمو تھراپی کے وقت اسے اوور ڈوز دیا گیا تھا جس سے اسکے اندرونی اعضاء بری طرح متاثر ہو چکے تھے۔باقی کسر اس اعلیٰ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے پوری کر دی۔انہوں نے اتنی دوائیاں دیں جو انسانی برداشت سے ہی باہر تھیں لہٰذا یہ دوائیاں رنگ لائیں اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ انہوں نے بہت سارے ٹیسٹ اور بہت سی ادویات دے کر ہسپتال کا بل تو بڑھا لیا لیکن مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میری نظر میں اسکی موت کے ذمہ دار صرف اور صرف ڈاکٹرز ہیں۔اگر ممکن ہو تو ایسے ہسپتال اور ایسے ڈاکٹر ز سے پرہیز کریں۔ (ختم شد)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024