فوج کسی بھی ملک کیلئے بہترین دفاعی حصار ہوتی ہے۔ فوج جتنی مضبوط ہو گی ، اُس ملک کا دفاعی حصار بھی اتنا ہی مضبوط ہو گا۔ پاکستان کی بات کریں تو اس کی فوج کا شمار دنیا کی اُن افواج میں ہوتا ہے جنہیں عسکری اعتبار سے نہایت سکّہ بند اور پروفیشنل مانا جاتا ہے۔ گلوبل فائر پاور کیمطابق پاکستان کی فوج اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے، جبکہ دنیا بھر کی مضبوط ترین افواج میں اس کا 17واں نمبر ہے۔ تاہم مسلم دنیا میں اس کوپہلا نمبرحاصل ہے۔ چار وجوہات کی بناء پر دنیا میں پاکستانی افواج کو بہترین سمجھا جاتا ہے: 1۔ آئی ایس آئی یعنی خفیہ معلومات اکٹھی کرنے والی ایجنسی ۔ مختلف امریکی انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق آئی ایس آئی کو اس وقت دنیا میں مانی ہوئی انٹیلی جنس ایجنسی کا درجہ حاصل ہے۔ امریکہ ہی نہیں، دیگر کئی یورپی ملکوںنے بھی آئی ایس آئی کو اُسکی کارکردگی کی بنیاد پر ناصرف بہترین قرار دیا ہے بلکہ امریکی سی آئی اے کے ہم پلّہ کہا ہے۔ آئی ایس آئی 1948ء میں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد قائم کی گئی۔ اس کی تشکیل کا مقصد پاکستان کے اندرونی اور بیرونی سطح پر جنم لینے والے خطرات کو کم کرنا، اُن سے مکمل آگاہی رکھنا اور قومی مفادات کا تحفظ تھا۔ 2۔ جوہری طاقت۔ پاکستان کی علاقائی صورتحال اور بھارتی عزائم کو دیکھتے ہوئے 28مئی 1998ء میں پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں اس وقت پاکستان کا 7واں نمبر ہے۔ ایٹم حاصل کرنے والا یہ پہلا مسلمان ملک ہے۔ ایک بڑے اور مہلک ہتھیار کی حیثیت سے پاکستان کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے جس کا کریڈٹ ہمارے سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ ہماری فوج اور سیاسی قیادت کو جاتا ہے۔
3۔ کمانڈوز۔ یہ پاکستانی فوج کا خصوصی سروس گروپ ہے جو ایس ایس جی کہلاتا ہے۔ عرفِ عام میں اس خصوصی گروپ کو کمانڈوز کہا جاتا ہے۔ دنیا کی اعلیٰ ترین ایلیٹ افواج میں ایس ایس جی کا آٹھواں نمبر ہے۔ جن کو بلیک اسٹورکس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ایس ایس جی یعنی کمانڈوز کے گروپ میں شامل ہونے کیلئے کسی بھی فرد کو سخت ٹریننگ سے گزرنا پڑتا ہے۔ 12گھنٹوں میں 36میل کے ٹریک اور 50 منٹ میں 5میل کی دُوری کو مکمل گیئر سے مکمل کرنا پڑتا ہے۔ موسموں کے تغیر و تبدل بھی ان پر حاوی نہیں ہوتے۔ بھوکے پیاسے، اڑتالیس، اڑتالیس گھنٹے گزارنے پڑتے ہیں۔ اس دوران ان کو مطلق بھی تھکاوٹ یا بھوک کا احساس نہیں ہوتا۔ نہ ہی وہ یہ احساس ہونے دیتے ہیں۔ کڑی مشقت اور محنت والی ٹریننگ کے بعد بالآخر وہ ایس ایس جی کا حصّہ بن جاتے ہیں۔4۔ پیٹریاٹک اور ڈسپلنڈ۔ پاکستانی افواج اپنے ملک کیلئے نظم و ضبط، قربانی اور محبت کی اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ کسی بھی فوج کو کسی بھی کامیابی کیلئے اندر سے لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوج کو نظم و ضبط میں رکھنے کیلئے سخت قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اور فخر کی بات ہے کہ یہ تربیت اس قدر کارآمد اور مؤثر ثابت ہوتی ہے کہ اُن کی ذاتی زندگی میں بھی یہ نظم و ضبط جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ہماری افواج تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصّہ بری، دوسرا فضائی اور تیسری بحری کہلاتا ہے۔ اپنی افواج کو جدید اسلحے کی فراہمی کیلئے پہلے ہم دوسرں ملکوں کے محتاج تھے۔ یہ اسلحہ روس، چین، فرانس اور امریکہ سے خریدا جاتا تھا۔ جس کیلئے قومی خزانے سے ایک خطیر رقم ادا کی جاتی ۔ مگر اب اللہ کے فضل و کرم سے ہم خود اسلحے میں خودکفیل ہو گئے ہیں۔ واہ ، راولپنڈی میں ہماری اسلحہ ساز فیکٹریاں نا صرف جدید اسلحہ تیار کر رہی ہیں بلکہ یہ اسلحہ اب ہم بیرون ملک بھی بیچ رہے ہیں۔ہم نے جنگی جہاز سے لیکر ٹینک تک تیار کر لئے ہیں۔ میزائلوں کا تو شمارہی نہیں۔ ہمارے پاس ہر قسم کے میزائل موجود ہیں جو ہم نے خود تیار کئے ہیں۔یہ میزائل ایک ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ یہ میزائل ایٹم بم بھی لے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ اب نہ صرف ہم اسلحے میں خو د کفیل ہو گئے ہیں بلکہ اپنے تیار کردہ میزائلوں، جہازوں اور جدید اسلحے کی بدولت پوری دنیا میں بھی اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی اب ہم پر حملے کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پاکستان کے پاس جس قسم کی فوج اور ہتھیار ہیں وہ کبھی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تاہم اپنے اندرونی معاملات اور خلفشار سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے وہ سرحدوں پر آئے روز چھوٹی موٹی وارداتیں کرتا رہتا ہے لیکن اس چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں اُسے معلوم ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی افواج اپنی سرحدوں کے تحفظ کیلئے ہر وقت چوکس اور تیار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پلوامہ میں انڈین فورسز پر حملے کا جو واقعہ پیش آیا ، مود ی نے اس کا الزام پاکستان پر لگانے کی کوشش کی۔ پاکستان نے انڈیا کو یہ یقین دلایا کہ اس حملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی مودی کو کہا کہ وہ پاکستان کیخلاف پروپیگنڈہ بند کرے۔ اگر اُسکے پاس پلوامہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود ہے تو وہ ہمیں فراہم کیا جائے۔ لیکن بھارت نے آج تک اس پیش کش کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت صرف پروپیگنڈہ کرتا ہے، کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024