8 مارچ کو دو متضاد نقطہ نظر رکھنے والے عورتوں اور مردوں نے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں۔ لبرل خواتین اور مردوں نے عورتوں کی آزادی کیلئے جلوس نکالے جبکہ دائیں بازو کے اسلام پسند خواتین اور مردوں نے ’’حیا ڈے‘‘ منایا۔ پرانے پاپی ابن الوقت کمیونسٹ جنہیں کبھی سویت یونین سے مال و دولت ملتا تھا اور وہ اس نظریاتی ملک میں سرخ انقلاب لانے کے نعرے لگاتے تھے۔ سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد یہ لوگ سیکولزم اور آزاد خیالی کے نمائندے بن کر امریکہ اور ہندوستان کو خوش کرتے رہے اور اُنہیں پاکستان کی نظریاتی ، معاشرتی اور مذہبی اساس کیخلاف بات کرنے پر امریکہ اور ہندوستان سے ہر طرح کی فنڈنگ ہوتی ہے۔ وہ پرانے کمیونسٹ اور دہریے جن کے پائوں میں کبھی ڈ ھنگ کی چپل بھی نہیں ہوتی تھی۔ کھانے کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ آج وہ کروڑوں اور اربوں کی جائیدادوں فارم ہائوسز اور کاروباروں کے مالک ہیں۔ یہ وہ لوگ جو غیر منصفانہ دولت کی تقسیم کے خلاف تھے۔ آج اُنکے عالیشان گھروں میں ڈاکے پڑتے ہیں تو ڈاکوئوں کو کروڑوں روپوں کے ڈالرز، ہیرے ، جواہرات اور نقدی ملتی ہے۔ کسی کے پاس جائیداد اور دولت ہو۔ کسی کو کیا اعتراض مگر جب یہ دولت کسی مولانا کے پاس ہو تو یہ نام نہاد ترقی پسند لبرل اور پرانے دہریے اور کمیونسٹ پھر دوسروں پر کیوں اعتراض کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام حکومت میں تو جاگیردار، سرمایہ دار یا صنعتکار کچھ نہ کچھ کوشش اور منصوبہ بندی سے دولت اکٹھی کرتا ہے مگر نام نہاد ترقی پسندوں جو محض ایک دانشور، کالم نگار یا تجزیہ کار ہوتے ہیں وہ گزشتہ دس بیس سالوں میں کروڑوں، اربوں کے اثاثوں کے کیسے مالک بن گئے ہیں۔ آج جب ہندوستان میں سیکولزم کا جنازہ نکل گیا ہے تو آج عورت مارچ کی آڑ میں نئی نسل کو سکھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں خود مختار ہیں وہ باپ بھائی اور خاندانی نظام سے بغاوت کر سکتی ہیں۔ وہ نکاح کی پابندی سے اجتناب کر سکتی ہیں۔ اسلام آباد مارچ میں اِن عورت مارچ میں ’’بے ہودہ‘‘ سے لے کر وہ تمام عورت نما مرد بھی موجود تھے جو اسلام آباد میں (gay rights) کیلئے کام کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ کئی سینٹرز سے ملے کہ اُنکے حقوق کا بل سینٹ میں پیش کریں۔ یہ عورتیں بس ایک ہی نعرہ لگا رہی تھیں ہمیں آزادی چاہئے۔ یہ نہیں معلوم ہو رہا تھا کہ وہ کس سے آزادی چاہتی ہیں اُنہیں کس نے غلام بنا رکھا ہے۔ وہ بس یہ نعرے لگائے جا رہی تھیں کہ ہمیں پدرسری نظام سے آزادی چاہئے ہمیں سرمایہ داری سے آزادی چاہئے۔ ہمارے حقوق ہمیں ملنے چاہئیں۔ ان بیگمات کی اکثریت نے لاکھوں روپوں کے برانڈڈ کپڑے اور شوز پہنے ہوئے تھے۔ چند ایک غریب خواتین کو پیسے دے کر بھی لایا گیا تھا۔ ایک عورت نما مرد کی وڈیو عام وائرل ہے جس کے پاس بینر تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ بہن میری ہے اور زندگی اس کی اپنی مرضی کی۔ اس پر وہ سوشل میڈیا پر واضح کر رہا تھا کہ چاہے میری بیوی ہو، ماں ہو یا بہن ہو اُسے ہر طرح کی آزادی ہونی چاہئے۔ وہ معاشی، سیاسی اور جنسی چوائس رکھنے کی حقدار ہے۔ ان خواتین سے کوئی پوچھے کہ کیا وہ فیملی سسٹم کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ اگر وہ اپنی مرضی سے اپنی پسند سے جنسی چوائس کا حق رکھتی ہیں تو پھر بائیولوجیکل باپ کا کیسے پتہ چلے گا۔ آپ پدرسری Patriarchy کیخلاف بچیوں کو اُکسانے سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے کہ بیٹیاں باپ کی شفقت سے محروم ہو جائیں۔ نوے فیصد باپ بیٹیوں کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں اور ان کی خوشیوں کیلئے ہر قربانی دینے پر ہر گھڑی تیار رہتے ہیں۔ تو کیا ایک لڑکی باپ، بھائیوں خاوند اور بیٹیوں کے بغیر مضبوط اور توانا زندگی بسر کرسکتی ہے۔ کیا بڑھاپے میں ایسی آزاد خیال عورت کو معاشرہ عزت، تکریم اور معاشی سپورٹ دیگا۔ آج مغرب میں آزاد خیال عورتوں کی 40 فیصد سے زیادہ تعداد سنگل ہے اور انتہائی مشکلات میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھٹہ پر کام کرنیوالی عورتوں اور کھیتوں کھلیانوں میں محنت کش خواتین کے حقوق کی بات تو یہ آزاد خیال عورتیں کرتی نہیں ہیں مگر مغربی ایجنڈے کی بنیاد پر اپر مڈل کلاس کی عورتوں کے حقوق اور آزادی کی بات کی جاتی ہے۔
پرویز مشرف نے عورتوں کو اسمبلیوں میں نمائندگی کے مواقع فراہم کر دئیے۔ پاکستان کے مردوں کی اکثریت عورتوں کی تعلیم و تربیت اور اُنکی معاشی خودمختاری کی حامی ہے۔ مگر فاضل خواتین جس آزادی کی متقاضی ہیں‘ اس کا ہمارا معاشرہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ ماڈرن بستیوں میں ہر روز پارٹیاں ہوتی ہیں۔ بااثر اور عیاش لوگوں کو پاکستان میں ہر طرح کی آزادی ہے۔ اب کون سا کوئی ضیاء الحق کا دور ہے کہ مذہبی لوگ مخلوط مجلسوں پر ڈنڈے لے کر چڑھ دوڑیں گے۔ اگر پاکستان ایک Plural society ہے تو نہایت قلیل تعداد میں آزاد خیال جو کبھی کمیونسٹ ہوتے ہیں تو کبھی امریکہ نواز جمہوریت پسند اور کبھی انڈیا نواز امن کی فاختائیں وہ کیوں میڈیا کے زور پر اپنا ایجنڈا معتدل نظریاتی لوگوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرینگے تو پھر مذہبی انتہا پسند سخت ردعمل ظاہر کرینگے۔ ایسی تحریکوں سے مغرب میں رہنے والے اپنے طور پر یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ پاکستان کی خواتین اپنے خلاف نامنصفانہ قوانین میں جکڑی ہوئی ہیں حالانکہ آج کی پڑھی لکھی خواتین کی اکثریت محنت کش ہے اور گھر کی معیشت اور معاشرت چلانے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کا کردار مرد کے برابر بلکہ بعض صورتوں میں مردوں سے زیادہ ہے۔ وہ گھرداری اپنی خوشی سے کرتی ہے۔
پاکستان کی تعلیم یافتہ اور پروفیشنل عورتوں کی اکثریت ایسی ہے۔ جو گھریلو ذمہ داریوں اور دفتری ، پیشہ وارانہ مصروفیات میں توازن اور اعتدال برتنے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ انہوں نے گھروں اور معاشرے کے استحکام کو خطرے میں نہیں ڈالنا ہے۔ وہ مغربی عورتوں کی ناکامیوں سے یہ سیکھ گئی ہیں کہ پیشہ وارانہ زندگی کیلئے گھریلو زندگی کو خراب نہیں کرنا۔ آج کی پاکستانی عورت مرد کی برابر کی ساتھی ہے۔ اصل پاکستانی عورت جفاکش ، ہمدرد اور غیرت مند ہے وہ ماں بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ انسانی رشتوں سے نباہ کرنا جانتی ہے۔ ہمارے پیغمبرؐ نے سب سے زیادہ عورت کی عزت اور تعظیم پر زور دیا۔ بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا تاہم جہاں مظلوم اور بے کس عورتوں پر مرد ظلم ڈھاتے ہیں۔ اُنکی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ اُن کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو مرد اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں وہیں عورتیں ہی عورتوں کا استحصال بھی کرتی ہیں۔ اکثر مضبوط عورتیں اولاد کی حمایت محض اس لیے حاصل کر لیتی ہیں کہ وہ ’’ماں‘‘ ہیں اولاد سمجھتی ہے کہ ان کی ہر بات ماننا اللہ کا حکم ہے تو ایسی بہت ساری عورتیں اپنے گھروں میں حاکم بن کر زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ماں کا حکم باپ سے زیادہ چلتا ہے۔ امریکہ میں نصف سے زیادہ قومی دولت پر عورتیں قابض ہیں جو اُنہیں شوہروں سے طلاق یا انکی وفات کے بعد آدھی دولت ملتی ہے۔
امریکہ میں حقوق نسواں کی تحریک میں سفید فام مردوں کے غلبے اور جبر کیخلاف سفید فام اور سیاہ فام عورتیں متحد ہیں۔ امریکہ کا سیاہ فام مرد بھی سفید مرد کے استحصال کا شکار ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی مسئلہ عورت اور مرد کی آزادی کا نہیں ہے بلکہ غریب ، مظلوم مردوں اور عورتوں کا جاگیردار اور سرمایہ دار عورتوں اور مردوں کی طرف سے استحصال کا ہے۔ وہ گھریلو عورت جو اپنی ملازمہ پر ظلم کرتی ہے وہ بھی ظالم ہے۔ یہ آزاد خیال عورتیں اپنے جسم کی حفاظت تو کرتی ہیں مگر اپنی ملازمائوں کے جسم پر مشقت کا بوجھ کیوں ڈالے پھرتی ہیں۔ کم اجرت کے عوض اُن سے پاکستان میں چوبیس گھنٹوں کی مشقت کیوں لے رہی ہیں۔ اتنی انصاف پسند ہیں تو اُنہیں یورپ اور امریکہ کیمطابق گھریلو اجرتیں اور حقوق ادا کریں ۔ بیسویں صدی میں حقوق نسواں کی حمایت میں فرانسیسی خاتوں سائمون ڈی بوائز نے ’’سیکنڈ سیکس‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھ کر مغرب کی عورت کے ذہن میں پیدا ہونے والی بغاوت اور احتجاج کی آگ پر تیل ڈالنے کا فریضہ ادا کیا۔ وہ درحقیقت اُن امریکی مردوں کی دقیانوسیت، تنگ نظری اور تعصب پر سخت برہم ہے جو عورت کی سربراہی میں کام کرنے کو مردانہ شان کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بنی ہے۔ بوائر عورتوں کی توجہ اس نقطے کی طرف مبذول کرتی ہے۔
مرد تو قائم بالذات ہے وہ عورت کے بغیر اپنا تشخص رکھتا ہے تو عورت ایسا کیوں نہیں کر سکتی ہے وہ قائم بالذات کیوں نہیں۔ وہ سہارے کیوں ڈھونڈتی ہے وہ اپنے وجود کی مالک ہے۔ بائر کی ان باتوں سے آج یورپ اور مغرب کی عورت کی زندگی دکھوں کی عبارت بن چکی ہے ۔ وہ محنت کرتی ہے اور مرد کے دئیے ہوئے جائز اور ناجائز بچوں کو بھی پالتی ہے۔ کاش بوائر عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے کی بجائے اُنہیں ایک دوسرے کا معاون اور ساتھی بنانے پر زور دیتی تو مغرب میں خاندانی نظام کی اکائی برقرار رہتی۔ کیا پاکستان میں بھی چند خواتین خاندانی نظام کی اکائی کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کیوں؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024