کشمیری اپنی جلا وطن حکومت بنائیں

امیر العظیم نے پاک بھارت کشیدگی کا جوتجزیہ بیان کیا،اس نے میری راتوں کی نیند اڑا دی ہے۔ میں یہ سب کچھ لکھ کر آپ کی نیند بھی حرام کردوں گا۔امیر العظیم ہیں کون۔ بھارتی را کی وہ ہٹ لسٹ پر ہیں۔ انہیں آپریشن کے ٹو کاا نچارج کہا گیا یعنی خالصتان اور کشمیر میں جوکچھ ہوا، اس کے لئے انہیں مورد الزام ٹھہرایا گیا ۔کم از کم بھارتی را کے ا علی افسروںنے اپنی خود نوشت کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ اس وقت وہ پنجاب جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔ جماعت کے موجودہ امیر سراج الحق سے پہلے وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے امیر تھے۔ مگر سراج ا لحق ان سے ا ٓگے نکل گئے۔ وہ جماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے اور ملک کے اندر اور باہر انہوںنے کئی طوفان کھڑے کئے اور کئی طوفانوں کے منہ موڑ کر رکھ دیئے۔ میری ان سے پہلی ملاقات کوٹ لکھپت جیل میں ہوئی۔ حکمران نام تو اسلام کا لیتے ہیں مگر اسے نافذ نہیں کرتے اور جماعت ایک اسلامی ریاست کے نظریئے کی علم بردار ہے۔ یہ علم تو عمران خان نے بھی اٹھا لیا ہے ۔ وہ ریاست مدینہ کی تقلید کا عزم کئے ہوئے ہیں، مگرخدا نہ کرے کہ کوئی ٹیسٹ کا وقت آیا تو جماعت اسلامی یہاں بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جسے خود امیرا لعظیم نے اٹھایا ہے۔ ہفتے کے روز انہیں دعوت دی گئی تھی کہ وہ کشمیر کی جدو جہد آزادی کے ماضی حال اور مستقبل پر روشنی ڈالیں۔ ایک نیم تاریک کمرے میں وہ خالد سلیم،ڈاکٹر زینب احمد۔ وحید رضا بھٹی۔ عمیر احمد اور معظم علی خان سے مخاطب تھے۔ امیر العظیم صرف ہنس دیتے اور سوالوںکو نظرا نداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتے۔ان کا کہنا تھا کہ سقوط ڈھاکہ سے پوری امت مسلمہ کو ایک سبق ملا کہ کسی بھی ملک کی سیکورٹی اور سلامتی کے تحفظ کے لئے صرف وہاں کی فوج کافی نہیں۔ اس کی اعانت کے لئے نجی لشکر تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کاا حساس مشرقی پاکستان کی لڑائی کے دوران بھی ہو گیا تھا اور البدراور الشمس جیسی جہادی تنظیمیں پاکستان کے تحفظ کی جنگ کے لئے کھڑی کی گئیں۔ انہیں منظم ہونے میں وقت کم ملا۔ اس لئے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے ا ور سقوط ڈھاکہ کا زخم سہنا پڑا۔ مگر جب سوویت روس نے افغانستان پر یلغار کی تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جہادی تنظیموں نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اور پاکستان کی سرزمین افغانستان میںمداخلت کے لئے علی الاعلان استعمال ہوئی۔ اسے پاکستان کے صدر جنرل ضیا اورا ٓئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمان نے کنٹرول کیا۔ امریکہ ا ور مغرب نے وقتی طور ان جہادی تنظیموں کو استعمال کیاا ور برداشت کر لیا ، پہلے تو جہادیوں کو انتہا پسند کہا گیا ۔ پھر انہیں تشدد پرست کہا گیا اور آخر کار ان پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا۔امریکہ اور مغرب نے افغان جہادی تنظیموں میں پھوٹ ڈلوائی ا ور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے کا خون کرنے پر اکسایا۔امیر العظیم نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ افغان جہاد کے تجربے کی کامیابی سے کشمیریوں کو حوصلہ ملاا ور انہوںنے بھی جان ہتھیلی پر رکھی اور اپنی آزادی کی جدو جہد کا آغازکر دیا۔ان کی مدد کے لئے بیرونی تنظیمیں بھی حرکت میں آئیں مگر نائن الیون نے بیرونی مداخلت کا راستہ بالکل روک دیا۔ پھرکشمیر کی جدو جہد آزادی کو دہشت گردی کہا جانے لگاا ور کشمیریوں کی مد د کرنے والی تنظیمیں بار بار حکومتی پابندیوں کا شکار ہوتی رہیں۔
امیرالعظیم نے وضاحت کی کہ پاکستان اور دنیا بھر میں صرف پاکستان کی چند تنظیموں کو کشمیریوں کی حمایت کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ ایک پاکستانی حکمران بھٹو نے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔انہی بھٹو صاحب نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور ان کا یہ جملہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے کہ گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے، اس موقف پر کسی نے بھٹو ا ور ان کی پارٹی کو دہشت گرد نہیں کہا ۔ نہ کبھی ا س الزام میں ان پر کوئی پابندی لگی مگر لشکر طیبہ،جماعت الدعوۃ، حزب المجاہدیں اور جیش محمد کو آنکھیں بند کر کے سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا جاتا ہے۔کشمیر یوں کی تحریک آزادی میں ایک نیا موڑ اس وقت ا ٓیا جب پلوامہ کے گھنے جنگلوں میں سوشل میڈیا پر کشمیر کی آزادی کے لئے سرگرم عمل برہان وانی کو بھارتی فوج نے محاصرے میں لے کر شہید کیاا ور ان کی لاش کو سری نگر کی سڑکوں پر گھمایا گیا تاکہ دیگر کشمیری نوجوان عبرت پکڑیں ۔ بھارت کو برہا ن وانی کی شہاد ت اور لاش کی بے حرمتی سخت مہنگی پڑی ۔ا س کے جنازے میں کئی لاکھ کشمیریوں نے شرکت کی اور ان کی تدفین کے بعدہر کشمیری نوجوان برہان وانی کے نقش قدم پرچل نکلا۔ نہ کشمیر جہاد کونسل کا کوئی تعلق واسطہ اس تحریک سے رہ گیا۔ یہ کشمیریوںکی اپنی جدو جہد بن گئی۔پلوامہ کے حالیہ واقعے میں ایک کشمیری نوجوان نے ہی کردار ادا کیا۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف پاکستان اسی مجاہد کو پلوامہ کا شہیدکہتا ہے ، دوسری طرف پلوا مہ کی دہشت گردی کی مذمت بھی کرتا ہے۔ مگرا س سے بھی بڑھ کر ہم نے کشمیر کے نام لیوائوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنا شروع کر دی ہیں۔اگر چہ ہم ایک خود مختار ریاست ہیں اور اپنے شہریوں سے جو مرضی سلوک کریں مگر اس سے کشمیریوں کو کیا پیغٖام ملا کہ وہ یکہ و تنہا رہ گئے۔ بس اکیلے کشمیری نوجوان ہی سر کٹوانے کے لئے رہ گئے۔امیرا لعظیم روہانسے ہو گئے تھے۔ وہ آنسوئوں کی زبان میں کہہ رہے تھے کہ بھارت آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ اس اقدام میں کامیاب ہو گیا تو کشمیر میں بھی فلسطین والاڈرامہ ری پلے کیا جائے گا۔ کشمیر سے باہر کے ہندوستانی ریاست میں دھڑا دھڑ وہاں جائیدادیں خریدیں گے اور وقت کے ساتھ کشمیری اقلیت میں بدل جائیں گے اور وہ فلسطینیوں کے حشر سے دوچار ہو جائیں گے۔مگر امیرالعظیم نے کہا کہ ابھی وقت ہے کہ کشمیر کو فلسطین بننے سے بچایا جا سکتا ہے اور اس کے لئے ایک تو پاکستان کو ذمے دارانہ کردارا دا کرنا ہو گا۔ کشمیریوں کی حمائت کے الزام میں مختلف تنظیموں کا نمد اکسنے سے گریز کرناہو گا اور دوسرے جو کشمیری دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت زیادہ تعداد کشمیر کی آزادی کے لے سرگرم عمل ہے، انہیں چاہئے کہ وہ دنیا میں کسی بھی مناسب مقام پر کشمیر کی جلا وطن حکومت قائم کر دیں۔ اس اقدام سے کشمیر پربھارت کے دعوئوں سے ہوا نکل جائے گی اور مقبوضہ وادی کے بے یارو مدد گار کشمیریوں کے لئے عالمی سطح پر حمایت کے لئے ایک پلیٹ فارم میسر آجا ئے گا۔( جاری ہے )