مہنگائی: عوام کوریلیف دینے کی کوشش کی جائے
رواں ماہ مارچ کے دوران مہنگائی کی شرح میں 1.16 فیصد جبکہ کم آمدنی والے طبقے کے لیے قیمتوں کے حساس اشاریوں میں 1.12 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے پہلے ہفتے کے دوران پٹرولیم مصنوعات زندہ مرغی، ٹماٹر، ایل پی جی، پیاز، دال مونگ، دال مسور، دال ماش، چینی ، گڑ، لہسن ، کیلا، نمک، تازہ دودھ، دہی، آٹا، چاول اور خوردنی تیل سمیت 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ دوسری طرف آلو، سرخ مرچ، انڈے، چنے کی دال ، گندم اور پانچ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی۔
قیمتوں کے اُتار چڑھائو میں ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ ذخیرہ اندوز اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث عناصر بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر تو انتظامیہ مستعدی کا ثبوت دے اور اشیاء صرف و خورو نوش کی رسد اور طلب کے نظام پر گرفت مضبوط رکھے تو ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ڈالر کا ریٹ بڑھتے ہی ٹماٹر راتوں رات 40 روپے فی کلو سے بڑھ کر 140 روپے کلو ہو جائیں ۔ نگرانی کے ناقص نظام نے ، سپلائرز اورسٹاک ہولڈرز کو من مانی قیمتیں مقرر کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اب جب کہ حکومت کے مالیاتی بزرجمہروں کے بقول، معاشی بحران ختم ہو گیا ہے اور معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے تو اس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہئیں۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے۔ کنٹرول کا سسٹم کھیت سے شروع ہونا چاہئے۔ کسان کو پیداوار منڈی تک پہنچانے کی وافر سہولتیں میسر ہونی چاہئیں۔ اسی طرح کمشن ایجنٹ یعنی آڑھتی پر بھی کڑی نظر رکھی جانی چاہئے۔ بعض سبزیاں ا ور پھل زیادہ وقت تک تروتازہ نہیں رہ سکتے اگر اُن کی فروخت میں تاخیر ہو تو گلنا سڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آڑھتی تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے کسان کو من مانی قیمتوں پر مال فروخت کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ٹماٹر ، پیاز ، نمک، دہی، آٹا، چاول کو ڈالر ریٹ سے مربوط کرنا بددیانتی ہے، جس قسم کی مہنگائی ہمارے ہاں پائی جاتی ہے، سو فیصد مصنوعی ہے اور اس کا تدارک انتظامیہ کی مستعدی سے ہی ممکن ہے۔