منگل ‘ 4؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 12؍ مارچ 2019ء
چین اس سال دوسرا مصنوعی سورج تیار کرے گا
لیجئے جناب ہم ساری عمر اپنی شاعری میں دوسرا چاند تراشتے رہے ہیں۔ اس میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ ہزار سال سے ہمارے شاعر اور عشاق خیالی معشوق کے حسن کے قصیدے لکھتے ہوئے اسے مہ کامل‘ ماہتاب‘ رشک قمر اور نجانے کن کن الفاظ میں چاند سے تشبیہ دیتے رہے مگر پھر بھی تسلی نہ ہوئی۔ بالآخر تنگ آکر ساحر لدھیانوی کو کہنا پڑا کہ؎
میں تجھے چاند کہوں یہ مجھے منظور نہیں
چاند کے پاس بھی کیا رکھا ہے داغوں کے سوا
اسکے بعد بھی ہمیں عقل نہیں آئی اور ابھی تک چاند چہرہ اور میرے چندا کہنے سے ہمارے لوگوں کو فرصت نہیں اور ابھی تک چاند جیسی بہو لانے کے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ادھر ہمارے پڑوسی چین کو دیکھ لیں‘ اس نے ہمارے خیالی چاند کے مقابلے میں ایک مصنوعی سورج تیار کر لیا ہے جو حقیقی سورج کی طرح پورے چین کو توانائی فراہم کریگا۔ یوں چین سارا شمسی توانائی سے فائدہ اٹھانے والا پہلا ملک بن جائیگا۔ ہم بے جان چاند کو تکتے رہ جائینگے اور وہ مصنوعی سورج مقابل میں لا کر حقیقی سورج کو چیلنج کرتا پھرے گا کہ ’ہم سا ہو تو سامنے آئے۔‘‘ اب دیکھتے ہیں ہمارے خیالی دانشور اب اپنے خیالی رشک قمر کے خواب سے نکل کر اس مصنوعی آفتاب کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ کون سی غزل یا دوغزلہ لکھتے ہیں کیونکہ اس سے زیادہ کچھ کرنے والا کہنے کی ان میں ہمت کہاں۔
٭…٭…٭…٭
بھارتی گائو ماتا ساہیوال کی گائے کے مقابلے میں ہار گئی
بھارت میں گائو ماتا کی رکھشا کے نام پر جو نوٹنکی رچائی جا رہی ہے دنیا بھر کے لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ صرف شک کی بنیاد پر مسلمانوں کو گائو ماتا کے پجاری قتل کر رہے ہیں۔ مگر اسی بھارت میں روزانہ لاکھوں گائیوں کو وہاں کے ہندو چمارہتھیا کر ان کی کھالیں اتارتے ہیں تاکہ جوتے اور بیگ بنانے والے ہندو ساہوکاروں‘ سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو فروخت کریں جو اسی گائو ماتا کے چمڑے سے اپنے کارخانے چلاتے ہیں۔ اب یہ ادھرم اورپاپ نہیں تو اور کیا ہے۔ خود گائے کو ماریں‘ اسکی کھال اتاریں تو ثواب‘ دوسرا ذبح کرکے اس کا گوشت کھائے تو گناہ۔ یہ بڑی بے تکی بات ہے۔ اس کیساتھ ساتھ اپنی ماتا کے نام پر فراڈ کرنے میں بھی بھارتی حکومت پیش پیش ہے۔ بھارت لاکھوں ٹن بیف (گائے کا گوشت )دنیا بھر میں سپلائی کرتا ہے تاکہ لوگ اسے کھا کرپیٹ بھریں اور بھارتی صنعتکار اپنی تجوریاں۔ اب تو بھارتی حکومت نے دنیا کی بہترین دودھ دینے والی گائے جو ساری دنیا جانتی ہے پاکستان کی ساہیوال نسل کی ہے کو اپنے نام سے رجسٹرڈ کرنے کی سازش رچائی‘ مگر اسے منہ کی کھانی پڑی۔ یوں فوجی میدان میں مار کھانے کے بعد اب عالمی میدان میں بھی بھارت نے خودو اپنی سبکی کا سامان پیدا کر لیا۔ عالمی ادارے نے پاکستانی ساہیوال نسل کی سرخ خوبصورت اور زیادہ دودھ دینے والی گائے کے مقابلے میں بھارتی گائے کو رجسٹرڈ کرنے کی بھارتی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اب پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی پیاری گائے کو جو ہر لحاظ سے بھارتی گائوماتا سے لاکھ درجہ سندر‘ شیتل ہے اور زیادہ دودھ بھی دیتی ہے عالمی ادارے میں رجسٹر کرائے اور بھارت کو بتا دے کہ ہر لال گائے ساہیوال والی جیسی نہیں ہوتی۔ اس سے قبل بھارت پاکستانی باسمتی کو بھی اپنے نام سے رجسٹر کرانے میں منہ کی کھا چکا ہے مگر لگتا ہے اسے بار بار پٹنے میں مزہ آتا ہے۔ اب بھلا ہم کیا کر سکتے ہیں۔ سو اسے پٹنے دیں۔ ساہیوال کی سرخ گائے کی افزائش کا سلسلہ 1915ء کے منٹگمری دور سے شروع ہوا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اسے عالمی اداروں میں رجسٹر کروائے۔
٭…٭…٭…٭
بھارت نے پلوامہ حملے کا ماسٹر مائنڈ تبدیل کر دیا
ہسپتالوںمیں بچہ یا بچی تبدیل کرنے کی وارداتوں کا سب سنتے رہتے ہیں۔ مگر اس طرح کسی منصوبے یا فارمولے کے خالق کا تبدیل کرنا صرف بھارت والوں کا ہی کمال ہے۔ یہ کام آج سے نہیں عرصہ دراز سے ذہنی خبط کا شکار بھارتی دانشور اور حکمران کرتے چلے آئے ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل بھارتی سائنسدان قسم کی ایک چیز نے دعویٰ کیا کہ میزائل اور ایٹمی ٹیکنالوجی صدیوں سے بھارت میں عام تھی۔ مہابھارت میں پانڈوئوں اور کوروئوں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں میزائل اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد تو دنیا بھر کے جذباتی سائنسدانوں نے مل کر اجتماعی خودکشی کا پروگرام بھی بنا لیا تھا مگر سنجیدہ سیاستدانوں‘ حکمرانوں اور سائنسدانوں نے انہیں ایسا کرنے سے روکا اور سمجھایا کہ ایسی بے پرکی چھوڑنا بھارتی سیاستدانوں‘ سائنسدانوں اور حکمرانوں کی پرانی عادت ہے۔ وہ اپنے تخیلاتی افسانوں کو بھی حقیقت سمجھتے ہیں۔ شکر ہے اہل مغرب یونانی دیومالائی کہانیوں کے بارے میں ایسا اعتقاد نہیں رکھتے ورنہ وہ بھی یہ دعویٰ زیادہ اعتماد سے کر سکتے تھے کیونکہ ان کے جنگجو باہمی خانہ جنگی پر ہی یقین نہیں رکھتے تھے وہ اپنی حدود سے باہر نکل کر ہند و ایران تک اودھم مچاتے رہتے تھے جس کا تاریخی ثبوت بھی ہے۔ وہ بھی کہہ سنتے ہیں کہ ان کے یہ ہیرو ایٹمی آبدوز اور جدید لڑاکا طیاروں اور میزائل کی مدد سے دنیا فتح کرتے تھے۔ بہرحال اب پہلے تو بھارت پلوامہ حملہ کا ماسٹر مائنڈ مرحوم غازی عبدالرشید کو قرار دیتا رہا ہے‘ اب گزشتہ روز اچانک انہیں معلوم ہوا کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ پلوامہ کا ہی ایک گریجویٹ نوجوان مدثر خان عرف محمد بھائی ہے جو الیکٹریشن بھی ہے۔ یہ سارا بارودی مواد اور گاڑی اسی نے تیار کی تھی۔ یہ نوجوان 2018ء میں مجاہدین میں شامل ہوا ہے۔ اس نئی کہانی نے بھارتی حکمرانوں کی اس ساری جھوٹی کتھا کی پھر قلعی کھول دی ہے جس میں وہ پاکستان پر اس حملے کا الزام دھرتا آرہا رہا تھا۔ اب وہ کس منہ سے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام دھرے گا اور دنیا کو کیا منہ دکھائے گا۔ اسی لئے کہتے ہیں جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔