امریکہ کے پاکستان سے غیر حقیقی مطالبات جبکہ مسئلہ کا حل امریکہ کے ہاتھ میں ہے!
امریکی دفتر خارجہ کی سینئر اہلکار ایلس ویلز نے واشنگٹن میں یونائٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس تھنک ٹینک میں افغانستان کے حوالے سیمینار سے خطاب کیا، انہوں نے ایک بار پھر پرانے امریکی الزامات کا اعادہ کیا اور کہا کہ پاکستان نے دہشت گرد گروپوں کے خلاف فیصلہ کن مذاکرات نہیں کئے۔ اسی طرح ابھی تک پاکستان کی طرف سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن اور مستقل بنیادوں پر اقدامات بھی نہیں دیکھے گئے۔ سینئر امریکی سفارت کار کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا۔
امریکی لیڈروں کی بیشتر تعداد کی طرح سینئر امریکی سفارتکار ایلس ویلز نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں اور جدو جہد کو جس طرح گھٹا کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے وہ امریکیوں کے مجموعی رویے سے مختلف نہ ہونے کے علاوہ افسوسناک اور تعجب خیز بھی ہے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں قربانیوں کا عالمی برادری ہی نہیں کئی امریکی زعما بھی اعتراف کر چکے ہیں۔ چار پانچ ماہ قبل پاکستان کی حکومت نے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی و مالی نقصانات پر مبنی’’ فیکٹ شیٹ‘‘ جاری کی تھی۔ یہ ممکن نہیں کہ انگریزی میں شائع ہونے والی جس رپورٹ کے حوالے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے دیئے ہوں وہ امریکی حکام کی نظر سے نہ گزری ہو۔ ’’ فیکٹ شیٹ‘‘ میں اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ امریکہ کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں جنم لینے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے 74ہزار شہریوں اور فوجیوں نے جانی قربانیاں دیں اور ایک کھرب 23ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ اعداد و شمار کے تقابل سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے نقصانات ، ٹون ٹاور کی قیمت اور امریکی اور نیٹو وغیرہ کے (افغانستان میں) نقصانات سے زیادہ ہیں۔ ان حقائق کی موجودگی میں پاکستان کو فیصلہ کن مذاکرات یا اقدامات کا الزام دینا کسی طور پر درست نہیں، پاکستان سے زیادہ امن اور دہشت گردی کے خاتمے کا خواہاں کون ہو گا۔ امریکہ الزامات کی بجائے اس لعنت سے نجات کے لئے قابل عمل تجاویز سامنے لائے۔ پاکستان ان پر غور کرنے پر آمادہ نہ ہو تو پھر اسے الزام دیا جائے۔ دہشت گرد اور دہشت گردی کسی طور بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی ان سے اس کی کوئی حاجت وابستہ ہے اور نہ ہی وہ اس کی یہ قیمت دینے کو تیار ہے کہ ان کی میزبانی کا ’’ اعزاز‘‘ حاصل کرنے کے بدلے افغانستان ایسے ہمسایوں اور امریکہ ایسی بڑی طاقت سے اچھے تعلقات کو قربان کر دے۔ اگر امریکہ غور کرنے پر آمادہ ہو تو پاکستان کے پاس بھی اس مسئلے کا ایک قابل عمل حل ہے کہ وہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے تا کہ انہیں قومی دھارے میں لایا جا سکے اور انہیں احساس ہو کہ افغانستان میں امن و خوشحالی اور استحکام لانے کے لئے انہیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔