حلقہ بندیوں کے نقشوں کا افسوسناک افشا
حلقہ بندیوں کے نقشے لیک کرنے پر چیف الیکشن کمشنر سردارمحمد رضانے 2 افسروں کو معطل کر دیا، اور ان کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا۔
2018ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کے بعض صوبوں کی آبادی بڑھی یا کمی ہوئی ہے۔ چنانچہ آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے حلقوں کی ازسر نو حلقہ بندی ضروری ہو گئی، انتخابی حلقوں کی (آبادی کے حساب سے ردوبدل کر کے) نئی حد بندیاں متعین اور نمبر دئیے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے انتخابی حلقوں کی حد بندی کا معاملہ اتنا سادا نہیں ہے جتنا عموماً سمجھا جاتا ہے۔ اسمبلیوں کے ایسے ارکان خاصی بڑی تعداد میں ہیں جن کا شمار انتخابات مستقل لڑنے والوں میں ہے، بلکہ بعض حلقے تو ’’خاندانی اور آبائی‘‘ کہلانے لگ جاتے ہیں، ایسے ارکان اسمبلی (اگر وہ دیانت دار ہوں) ترقیاتی فنڈز کی پائی پائی اپنے حلقوں کی تعمیر و ترقی پر صرف کر دیتے ہیں، اس اُمید پر ‘ کہ عوام اُن کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں منتخب ایوانوں میں بھجوانے کے لئے ووٹ دیں گے ۔ اور اب جب نئی حد بندیاں ہونے لگی ہیں، تو دلچسپی رکھنے والے حضرات بڑے اضطراب میں ہیں۔ نئے انتخابات اس لحاظ سے بھی بڑے دلچسپ ہوں گے کہ محض نئی حد بندیوں کی وجہ سے کئی ’’برج‘‘ اُلٹ جائیں گے۔ چونکہ حد بندیوں کا کام اس لحاظ سے بڑا نازک ہے اور الیکشن کمشن بڑی رازداری سے اسے انجام دے رہا ہے۔ اس نازک مرحلے پر اگر کسی اہلکار سے حلقے بندیوں کو لیک کرنے کی کوتاہی ہوئی ہے یا یہ کام کسی ایسی قوتوں کی کارستانی ہے، جن پر ہمیشہ ’’بازی‘‘ لے جانے کی دھن سوار رہتی ہے، تو بھی ، ہر دو صورتوں میں بڑی باریک بینی کے ساتھ تحقیقات کر کے ، ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اور اُن سے قانون کے مطابق نپٹا جائے۔ اس لیکج کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اہم اور ذمہ داری کا کام ایسے لوگوں کے سپرد کیوں کیا گیا، جو قومی راز کی مزید چند دِن بھی حفاظت نہ کر سکے۔