کس قدر قابل افسوس بات ہے کہ آج ہمارے حکمران، جو ہمارے لئے آئیڈیل ہونے چاہیئں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہونے چاہیئں، جن کی تقلید کرکے ہمیں راہ نجات ملنی چاہئے انہی حکمرانوں کا عوام میں جانا مشکل ہوتا جا رہا ہے، گزشتہ دو دنوں میں خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے اور نواز شریف کی طرف جوتا اُچھالنے جیسے واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیوں کہ یہ غیر اخلاقی حرکت ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے میں قبول نہیں کی جا سکتی لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا وقار اس قدر پست کیوں ہو چکا ہے کہ لوگ صدر بش جو عراق و افغانستان کے لاکھوں لوگوں کا قاتل تھا اس میں اور ہمارے حکمرانوں میں فرق ہی نہیںکر رہے لوگ اسے بارودی قتل سمجھتے ہیں جبکہ ہمارے حکمرانوں کو عوام معاشی قاتل گردان رہے ہیں اور عوام کو جب انصاف نہیں ملتا تو وہ اپنا غصہ ایسے موقعوں پر ہی نکالتے ہیں اب حالیہ سینیٹ الیکشن میں جب ہر طرف ہارس ٹریڈنگ دھاندلی کی کھلے عام باتیں ہوں گی تو عوام تو یہی سمجھیں گے کہ اُن کے روپے‘ پیسے اور جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ مذکورہ شخصیات پر جوتا یا سیاہی پھینکنے جیسے عمل کی عمران خان بھی مذمت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک غیر اخلاقی عمل ہے، جس کی کسی سطح پر بھی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے۔
خیر آج کا دن ملکی تاریخ کا اہم دن ہے جب ایک اہم ترین جمہوری ادارے میں جمہوریت آگے بڑھ رہی ہے۔ ایسا وقت کبھی کبھار آتا ہے جب کوئی منتخب ادارہ اپنی اہمیت اور عظمت منوا سکتا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب بھی ایک ایسا ہی تاریخی مرحلہ ہے جب اس کی حمیت کو چار چاند لگ سکتے ہیں یا پھر اس کے مقدر میں ایک اور گرہن لگنے کو ہے۔ تادم تحریر ابھی تک پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اعلیٰ سطحی اجلاس ہونے ہیں جس میں چیئرمین شپ کے لیے اپنے اپنے نام دئیے جائیں گے یا میرے ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی رضا ربانی کا نام فائنل کرے گی جنہیں ن لیگ کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ جبکہ بادی النظر میں رضا ربانی نے چونکہ گزشتہ تین سال بطور چیئرمین ن لیگ کے لئے ’’ہومیو پیتھک ‘‘ میڈیسن کا کام کیا ہے اس لیے ن لیگ یہی چاہے گی کہ اس سے پہلے اپوزیشن کوئی اور ان کے مخالف شخص کو چیئرمین بنا دے، رضا ربانی ہی اس منصب کے لیے فٹ ثابت ہو سکتے ہیں۔
آج چیئرمین سینیٹ بھی منتخب ہوگا، ڈپٹی بھی منتخب ہوگا اور 52 اراکین حلف بھی اُٹھا لیں گے اور چند دن تک سب بھول جائیں گے کہ کہیں ہارس ٹریڈنگ، ڈنکی ٹریڈنگ یا نچلی سطح کی سودے بازی بھی ہوئی تھی۔ ہم بھولنے کے عادی عوام یہ بھی بھول جائیں گے کہ سینیٹ کے انتخابات کے نام پر عوام کی رائے اور ووٹ کی بدترین توہین ہوئی۔ ہر صوبے کے عوام نے جس نظریے کو ووٹ دیا تھا، سینیٹ کے انتخابات میں اس رائے کے برعکس ہوا اور ووٹ کا تقدس بری طرح پامال ہوا۔ لیڈران کرام نے عوامی رائے اور ووٹ کی توہین اس طریقے سے کی کہ اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر دولت دیکھ کر ٹکٹ دئیے اور پھر ایم پی ایز اور ایم این ایز کی ایک بڑی تعداد نے چمک کی بنیاد پر ووٹ دے کر عوامی رائے کی توہین کی۔
ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو دن رات اس پارلیمنٹ کی بالادستی کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں اوراس پر لعنت بھیجنے والوں پر ہم لعنت بھیجنے میں دیر نہیں لگاتے۔ جمہوریت پر یقین تقاضائے حب الوطنی ہے اور پارلیمنٹ کی عزت اور توقیر ہم پر فرض ہے لیکن بہر حال جن لوگوںنے نوٹ دیکھ کر ووٹ اور ضمیر کا سودا کیا ، انہیں کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟ کیا اس کے لیے قانون سازی نہیں ہونی چاہیے؟ یا ہر تین سال بعد ایسی ہی منڈیاں سجتی رہیں گی اور عوام ان سیاستدانوں کے ہاتھوں یوں ہی تماشا بنتے رہیں گے؟
میرے نزدیک ضمیر اور عوام کا مینڈیٹ فروخت کرنے والے حیوان ہیں لیکن جن لیڈروں اور امیدواروں نے نوٹ دے کر ووٹ خریدے ، یا نوٹ دیکھ کر یا لے کر ٹکٹ دئیے ، وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور انسانیت کے دائرے میں رہے تو فرشتوں سے بھی افضل۔ لیکن وہ قوم کا ، عوام کا اور اپنے مینڈیٹ کا سودا کرے اور انسانوںکو نوٹوں میں تولنے لگے تو ڈنگروں سے بھی بدتر ہے۔ یہی لوگ ہیں جو ہزار بار جمہوریت کا نام لیں لیکن وہ آئین اور جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔کیوں کہ حالیہ ہارس ٹریڈنگ کے سبب دنیا بھر میں پاکستانی جمہوریت کیلئے کلنگ کا ٹیکہ بن گئے ہیں۔ حقیقت میں یہاں سسٹم کی کمی ہے، جو معاشرہ اپنی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے قانون سازی نہیں کرتا، اقتدار میں آکے اپنے آپ کو پھنے خاں سمجھ لیتا ہے، یا دھاندلی و ہارس ٹریڈنگ جیسے معاملات پر آنکھیں بند کر لیتا ہے وہ قوم کی خدمت نہیں کر رہا ہوتا بلکہ وہ قوم کے ساتھ ظلم عظیم کر رہا ہوتا ہے۔
چند سال قبل قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک ترقی یافتہ ملک کے وزیراعظم ہسپتال میں اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ کسی سے ملنے پہنچ گئے۔ اتفاق سے ہسپتال کے انچارج سرجن اور ڈاکٹروں کی ٹیم بھی اپنے مریضوں کی روزانہ کی چیکنگ کیلئے معائنہ کر رہی تھی۔ انہوں نے وزیراعظم صاحب کے ساتھ جو اتنے بندے دیکھے تو سرجن نے آگے بڑھ کر وزیراعظم صاحب سے اُن کے بغیر اطلاع آنے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ہسپتال سے چلے جانے کو کہا جواب میں وزیراعظم نے بھی فراخدلی سے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔اُس وقت مریضوں سے ملنے کا وقت نہیں تھا۔ ان ممالک کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی پر منحصر ہے، ان ملکوں میں دھاندلی و ہارس ٹریڈنگ کا تصور بھی موجود نہیں ہے، ان ملکوں میں کسی کے مرنے کے بعد بھی اگر چوری ثابت ہو جائے تو اسے قبر سے نکال کر سزا دی جاتی ہے یا اُس کی فیملی سے اس نقصان کو پورا کیا جاتا ہے۔ یعنی جس بات کا اسلام متقاضی ہے کہ ’’عدل قائم کرو‘‘ اسے مغرب والوں نے اپنا لیا ہے۔ بقول شاعر؎
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان سے ہم کو دے مارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا
ہمارا المیہ بھی یہی ہے کہ ہم تلخ حقیقتوں سے سبق نہیں سیکھتے، جو قوم سزائیں کاٹنے جیسے عمل پر فخر کرے اس قوم کی ذہنی استعداد کے بارے میں دنیا سوال اُٹھانے لگتی ہے۔ بیانیہ سننے والے اصلی عوام جب سامنے آئیں گے تو وہ یہ بیانیہ ان کے منہ پر دے ماریں گے پھر ان بیانیہ سنانے والوں کا پتہ بھی نہیں چلے گا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں۔ کیا دوسرے صوبے کا کوئی سابق مقتدر شخص ایسی سرکشی کا اظہار کرتا تو اُس سے صرفِ نظر کیا جا سکتا تھا؟ صرفِ نظر کئے جانے کے یہ نتائج نکلے ہیں کہ اُن کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی یہی رنگ پکڑنا شروع کر دیا ہے اور یہ کم خطرناک رجحان نہیں ہے۔
کیا ہمارے ہمسایہ ممالک کے دونوں ایوانوں میں موجود کوئی رکن اپنے دونوں بڑے اداروں کے خلاف یہ نفرت پھیلانے والا اسلوبِ تقریر اختیار کر سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور واقعی ایسا نہیں ہے تو استفسار کیا جا سکتا ہے کہ اداروں کے خلاف باتیں کرنے والوں کا بیزار کن لہجہ کس شے کی چغلی کھا رہا ہے؟ ہمارے جو ادارے اِس مملکت کے تحفظ کے لئے دن رات اپنے جوانوں کا خون دے رہے ہیں، اُن کے خلاف عقل کے عاری چند شخصیات کی وطن و ادارہ جاتی دشمنی کو کیوں اور کیسے برداشت کیا جا رہا ہے؟ آخر کیوں؟ آخر کب تک؟ موجودہ حالات میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی ترجیحات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور اگر کہیں ہارس ٹریڈنگ جیسے واقعات ہوئے ہیں انہیں دفنانے کی نہیں بلکہ عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کوئی ایک پارٹی یا فرد واحد اس ملک کو مسائل کی دلدل سے نہیں نکال سکتا بلکہ یہ کام ہمیں مل جل کرکرنا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024