سر زمین انبیاء شام میں اْجڑے ہوئے گھر ، خون کے آنسو روتی آنکھیں ، بکھرے انسانی اعضائ،آہ زاری کرتی مائیں، سسکتے باپ، چیختی بہنیں، تڑپتے بھائی امت مسلمہ کی مجرمانہ خاموشی پرسراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ معصوم بچوں کی روتے ہوئے احوال بیان کرتی ویڈیوز بھی مسلمانوں کے ضمیر جھنجھوڑنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔غوطہ میں روس اور بشار الاسد کی افواج ’’انسانیت کو شرما‘‘ دینے والی بمباری کر کے اپنے مخالفین کا’’قتل عام‘‘ کر رہے ہیں ۔ شام کے علاقے مشرقی غوطہ میں 2013 کے بعد سے اپوزیشن کا ’’اثر و رسوخ‘‘ ہے ۔یہاں تقریباً 4 لاکھ کے قریب افراد رہائش پذیر ہیں لیکن حالیہ صورتحال کا آغاز 18 فروری کے بعد سے ہوا، جب روس کی حمایت یافتہ شامی فورسز نے باغیوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے آپریشن شروع کیا۔حالیہ دنوں میںاب تک 900افراد جاںبحق ہو چکے ہیں، نہ جانے مزید کتنے لوگ ’’لقمہ اجل ‘‘بنیں گے ۔ ’’جسد واحد ‘‘مسلمانوں کے قتل عام پر اسلامی ممالک کی خاموشی مجرمانہ فعل سے کم نہیں ۔ شام کے سرکاری اعداوشمار کے مطابق مجموعی طور پر 5 لاکھ کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں، 10لاکھ کے قریب زخمی ہیں، 48لاکھ افراد لبنان، ترکی، اردن اور کچھ دیگر ملکوں میں ہجرت کر چکے ہیں۔70لاکھ کے قریب اندرون ملک ’’بے گھر‘‘ ہیں۔ 10لاکھ کے قریب لوگوں یورپ کے ممالک میں پناہ کیلئے درخواست دے چکے ہیں۔لیکن اسکے باوجود ظالم حکمران اپنے اتحادیوں سے مل کر فضائی اور زمینی سطح پر کارروائیاں کر رہا ہے جس کے بعد مشرقی غوطہ کی صورتحال’’ انتہائی کشیدہ‘‘ ہے شہریوں کو خوراک اور ادویات کی سخت کمی کا سامنا ہے۔ روس کی جانب سے مشرقی غوطہ میں 5 گھنٹے کی عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا جو ناکام ثابت ہواظلم عظیم یہ ہوا کہ شامی فورسز نے غوطہ میں امداد سامان لے جانے والے قافلے کے 90 فیصد سامان کو ضبط کرلیا تھا۔خوراک کی ضبطگی کے باعث’’ محصورین‘‘ کا ’’جسم وجان‘‘ کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے ۔شام کے 1946 میں فرانسیسی سامراج سے نام نہاد آزاد ی کے بعد اس ملک کے معاملات کئی سال تک اسی ’’سامراج‘‘ کی نگرانی میں رہے۔ اس کے بعد آمریت جیسی حکومت قائم رہی۔1970ء میں حافظ الاسد نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی ، اور ریفرینڈم کے ذریعے شام کے صدر کے عہدے پر پہنچ گئے۔ شام پر 21سال تک حکومت میں رہنے کے بعد جون 2000 ء میں ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئے تو ان کابیٹابشار الاسد10 جولائی 2000 کو ملک کا نیا صدر بنا،2007 میں دوسری بار صدر اور 3جون 2014 کو تیسری بار صدر منتخب ہوا۔لیکن شام کے عوام نے انھیں قبول نہیں کیا اور وہ بزور بازو شامی عوام پر حکومت کرنے پر’’ بضد ‘‘ہے جس کے باعث خانہ جنگی کی نوبت آئی ہے۔ روس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بھی شام کی دلچسپی لینا شروع کر دی اورمئی 2011 کو امریکی صدر بارک ابامہ نے شام میں ایک نئی جنگ کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں حکومت مخالف مظاہرے اور خانہ جنگی شروع ہوئی جس کو صدر بشارالاسد نے حکمت عملی کی بجائے فوجی طاقت سے’’ نمٹنے ‘‘کا فیصلہ کیا۔اسی دوران سعودی عرب اور ترکی نے بھی مداخلت شروع کر دی جبکہ ایران پہلے ہی حافظ اسد کا اتحادی ہے ۔ اس سارے تنازع میں اوآئی سی کا کردار انتہائی افسوسناک ہے۔او آئی سی دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے اس نے مسئلے کوحل کرنے کی بجائے مزید بگاڑا۔
ستاون مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے صرف شام کی رکنیت معطل کی کیا اس سے مسئلہ حل ہونے کی امید ہے؟ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ شامی حکومت کے لئے ایک سخت اور واضح پیغام ہے کہ اسلامی دنیا ایک ایسے نظام کو قبول نہیں کرسکتی جو اپنے ہی لوگوں کی جانیں لے اور ان کے خلاف بھاری ہتھیاروں، جنگی طیاروں اور ٹینکوں کا استعمال کرے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم دنیا شام کے مسئلے پر ایک پر امن حل کی حمایت کرتی ہے اور قتلِ عام کے فوری خاتمے کی خواہاں ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہو گی جب شام میں صرف کھنڈرات رہ جائیں اور انسانیت کا نام ونشان نہیں ہو گا ، آنکھوں میں’’ دھول جھونکنے‘‘ کے لئے شام میں خانہ جنگی کی جو وجہ ہمیں اقوام متحدہ یا مغربی میڈیا بتارہاہے وہ ہرگزدرست نہیں ہے۔ مغرب کو اپنے ہتھیار بیچنے ہیں اور اپنی دھونس اور’’ اجارہ داری‘‘ قائم رکھنی ہے اس لئے وہ اس جنگ میں پیش پیش ہے۔گزشتہ سات سال سے شام میں جاری خانہ جنگی 2017 کے اختتام تک تقریباً کافی حدتک ختم ہوچکی تھی۔اب شام کے پرامن مستقبل کے بارے میںغور وفکرکرناباقی رہ گیا تھا،لیکن امریکہ،فرانس اور برطانیہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے مفادات شایدابھی تک پورے نہیں ہوئے تھے۔اس لئے انہوں نے ترکی کی سرحدکے قریب شامی شہر عفرین میں کرد باغیوں کو ترکی کے خلاف ہتھیار مہیا کرکے ابھاراتاکہ خانہ جنگی کی آگ بھڑکتی رہے۔اگرچہ شام میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے لیکن حکومت میں زیادہ تر علوی فرقے کے افراد کا کنٹرول رہا ہے۔ مذہبی اقلیتوں نے اسد حکومت کی حمایت کی ہے لیکن علاقائی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری فرقہ وارانہ پراکسی جنگ کا شکار شام کی سرزمین بنی ہوئی ہے ۔ترکی کی شام کے ساتھ 800 کلو میٹر طویل سرحدہے۔ نیٹو میں ترکی کی فوج سب سے بڑی ہے، اور وہ شام کے اندر ایک بفر زون قائم کر سکتی ہے۔لیکن وہ بھی اس جانب نہیں بڑھ رہی۔حکومت مخالف شام کی نیشنل کونسل بیرونی مداخلت پر زور دیتی رہی ہے جس میں ترکی بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے لیکن وزارتِ خارجہ کے ترجمان کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو ترکی کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہیئے۔’’فی الحال ہمارے ایجنڈے پر کسی قسم کا کوئی فوجی پراجیکٹ نہیں ہے۔‘‘آخر ترکی کب خواب غفلت سے بیدار ہو گا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شام کی قیادت کے خلاف ترکی کا موقف سخت ہوتا جا رہا ہے اور اس کے مغربی اتحادی یہ’’ آس ‘‘لگائے ہوئے ہیں کہ شام کے صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے لیے ترکی مزید کوششیں کرے گا۔ ترکی میں آج کل یہ بحث جاری ہے کہ کیا شام پر بین الاقوامی پابندیوں اور سفارتی دباؤ کے نتیجے میں فوجی اقدام کیا جائے گا اور اس معاملے میں ترکی کو کیا رول ادا کرنا چاہیئے۔وہ کلیدی رول ہمیں نظر نہیں آرہا،ترکی کو دوسرے عرب ملکوں سمیت دوسرے اہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر دوسرے اقدامات پر غور کرنا چاہیئے۔ اگر شام کی طرف سے علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کا اب تک کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم دوسرے اقدامات پر توجہ نہ دیں۔‘‘ اسلامی ممالک فی الفور دوسرے آپشن پہ غور کریں تاکہ شامیوں کا قتل عام رک سکے ۔بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ (یونیسیف) نے شام کے مشرقی علاقے غوطہ میں بمباری کے نتیجے میں 39 بچوں کے جاں بحق ہونے پر بہ طور احتجاج ’’خالی اعلامیہ ‘‘جاری کیا ہے جس کے آغاز پر مضمون کی جگہ پر یہ سطر تحریر کی گئی ہے کہ ’’کوئی الفاظ ان جاں بحق بچوں، ان کے ماں باپ اور پیاروں کو انصاف نہیں دلا سکتے‘‘اس کے بعد پورا ’’صفحہ خالی ‘‘چھوڑ دیا گیا ہے۔کاش یہ ’’خالی صفحہ‘‘عالمی ضمیر کو بیدار کر سکے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024