ہم تو انہیں چاند نہ سورج جانیں
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
تھرپاکستان کا وہ خطہ ہے جو اپنی رومانوی خوبصورتی اور درماندگی کی وجہ سے بحث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کے صحرا کا وہ وسیع حصہ جو بنیادی ضرورت زندگی سے محروم اور غربت اور افلاس کے ہاتھوں قریب المرگ انسانوں اور جانوروں کی آماجگاہ ہے۔ انسان اور جانور تو کیا کوئی درخت اور فصل بیل بوٹا بھی وہاں زندہ نہیں ہے۔ ہرطرف بھوک ہے، افلاس ہے، کرب ہے، المیہ ہے اور درد و غم کی تصویر بنے بلکتے بچے اور غم و الم کی تصویر بنے جوان ، بوڑھے اور عورتیں ہیں۔
پوری قوم کیلئے عموماً اور ارباب اقتدار کیلئے خصوصاً یہ لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان جو پانچ دریائوں کی سرزمین ہے اور جہاں کے میدانی علاقے دنیا بھر کے زرعی میدانوں سے زیادہ زرخیز ہیں اورجہاں بہترین انسانی وسائل میسر ہیں۔ پاکستانی قوم وہ قوم ہے جس نے دنیا بھر میں علمی اور انتظامی عہدوں پر اپنی صلاحیتوں کی دھوم مچائی ہے جس نے ہر محاذ پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ لئے ہیں۔اسی پاکستان کے صوبہ سندھ، جہاں کراچی اور حیدرآباد جیسے بارونق شہر اور اسی طرح کے کئی ترقی یافتہ شہر آباد ہیں۔اس کے ایک کونے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اسکے ذمہ داروں کو اس کوتاہی کا احساس تک نہیں۔ ہر طرف بھوک اور افلاس ناچ رہی اور ان لوگوں کو شعلہ بار ہوتے سورج اور تپتی صحرائی زمین میں کہیں پناہ گاہ میسر نہیں۔
سرپر سورج کی شعاعیں اور زمین کے نیچے جلتا ہوا ریگستانی صحرا۔ آپ اندازہ کریں ان لوگوں کی زندگی کس قدر آگ کے شعلوں میں لپٹ رہی ہے اس پر یہ کہ اب بھوک قحط کی صورت ان پر نازل ہے۔ غذائی اجناس کی قلت ہی نہیں بلکہ Malnuter پر مسلط ہے یعنی غذاکے پورے اجزاء ان کو نہیںمل رہے۔ کئی عورتیں جو اس غذائی قلت کا شکار ہیں کمزور اور لاغر بچے پیدا کر رہی ہیں جو اکثر دوران زچگی ہی وفات پا جاتے ہیں اور جوزندہ بچ جاتے ہیں وہ گوناں گوں تکالیف کا شکار ہیں یہ افسوسناک صورتحال آج سے نہیں کئی برسوں سے مسلسل چلی آ رہی ہے۔ اس دھرتی سے 2004ء میں شوکت عزیز الیکشن جیت کر وزیراعظم بنے اور انہوں نے تھر کی ترقی کے لئے اربوں کے فنڈز جاری کئے لیکن آج تک اس رقم کا سراغ نہیں مل سکا کہ وہ کدھر چلی گئی؟ کیا وہ رقم تھر کی ریت میں کہیں دب گئی ہے یا پھر اسکی گرمی سے پگل کر بہہ گئی؟ ان سوالات کے جوابات آج تک کوئی نہیں جان پایا۔
بھارت کے ریگستانی علاقے راجستھان کی مثال سامنے ہے۔یہ بھی تھر جیسا علاقہ ہے مگر بھارت نے وہاں نہری پانی پہنچا کر کس طرح زرعی اجناس اگائی ہیں اور اس کو بے مثال تفریح گاہ میں بدل دیا کہ صدر کلنٹن تک تفریح کرنے وہاں گئے۔ہم بھی تھرپار کر کے صحرا کو تھوڑی سی محنت کر کے سر سبز و شاداب بناسکتے ہیں‘ وہاں کے لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بھوک ،ننگ ، افلاس اور قحط سے نجات دلا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اراکین شوریٰ ہمدرد نے خوب غور و غوض کے بعد تھر کے مسائل کے مندرجہ ذیل حل دریافت کئے۔
-1 غذائی قلت کو دور کرنے کیلئے غذائی اجناس کی فراہمی ایک قلیل المدت منصوبہ بندی ہے جو آج کل حکومت نہیں کر رہی ہے۔ اجناس اور بہت سی اشیاء وہاں بھیجی گئی لیکن متاثرین کو نہیں مل پا رہیں سینکڑوں پانی کی بوتلیں اور گندم کی بوریاں گوداموں میں ہی سڑ گئیں۔ -2 طویل المدت منصوبہ بندی کے لئے سب سے پہلے تھر میں وافر پانی کی موجودگی کو ممکن بنایا جائے اور نئے ڈیمز بنانے کی اشدضرورت ہے ۔ اس ضمن میںکالا باغ ڈیم ناگزیر ہے۔کیونکہ یہی وہ ڈیم ہے جس سے صوبہ سندھ، صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پی کے کے لوگوں کو کاشت کاری کیلئے وافرپانی اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ -3 صحرا میں مناسب منصوبہ بندی سے وہ اشجار لگائے جائیں جو یہاں پر پھل پھول سکتے ہیں۔ مثلاً زیتون اور کھجور کے درخت لگائے جائیں۔ -4 صحرا میں بہتر واٹر منیجمنٹ کیلئے Drip Irrigation کا سسٹم متعارف کروایا جائے۔ -5 تھر کے اندر موجود معدنی ذخائر کو دریافت کر کے باہر نکالا جائے اور وہاں کی معدنی دولت اسی جگہ کے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو معاشرے کے بے بس اور لاچار مجبور مرے ہوئے افراد کی مدد کیلئے آپس میں بہتر افہام و تفہیم اور نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور ایسی حساس جگہوں پر اہل اور دیانت دار افراد کو تعینات کیا جائے جو درد دل کے ساتھ دکھی عوام کے دکھ دور کرنے کا باعث بنیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024