منگل‘ 29 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 12 مارچ2013 ئ
فیکٹری ایریا میں نویں جماعت کے طالب علم کو زیادتی کے بعد پھندہ لگا کر مار دیا گیا
بدبخت قاتل کو پکڑ کر ”تارا مسیح“ کے حوالے کریں۔ نہ جانے درندہ صفت لوگ کہاں جنم لیتے ہیں۔ معاشرے میں بے راہ روی اس قدر پھیل چکی ہے کہ ماں باپ اولاد کو گھروں میں قید رکھنے پر مجبور ہیں۔ جس طرح سانپوں کی قسمیں شمار نہیں کی جا سکتی ایسے ہی بدقماش افراد کے حسب و نسب کا پتہ نہیں ہوتا۔ 9ویں جماعت کے طالب علم کو ابدی نیند سلانے والے قاتل پولیس کی پہنچ سے ابھی تک دور ہیں۔ ہمارے معاشرے کو ہوا کیا ہے ہر طرف موت ریوڑیوں کی طرح بٹ رہی ہے۔ قاتلوں کا پتہ ہی نہیں کون ہیں۔ کھوجی اپنی عیاشیوں میں مست ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے....ع
اف نہ کر آہ نہ کر چوٹ پہ چوٹ کھائے جا
ہم ہوش میں بھی نہیں آتے۔ اور طیش بھی جھاگ کی طرح چند سیکنڈ میں ”پُھس“ ہو جاتا ہے۔ آوارہ سگانِ قوم کو تلف کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ روز محشر مقتولوں کے سامنے ایک بھی نہیں چل سکے گی۔
٭....٭....٭....٭
لاہور میں لاکھوں کی وارداتیں‘ جبکہ پولیس کی بسیں بارات پر
پولیس پہلے موٹر سائیکلوں کے پیچھے ایسے پڑی تھی جیسے ڈینگی پنجاب کے عوام کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ اب سی سی پی او لنگوٹ کس کر بھکاریوں کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ ہر چوک چوراہے سے فقیروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ گرفتار شدگان کی تعداد 6 سو کے قریب تو پہنچ گئی ہے۔ شاید پولیس ”مک مکا“ ہونے پر اب انہیں رہا کرنا شروع کر دے۔ ویسے پولیس کو اگر حصے کی آفر ہو گی۔ تو وہ ضرور کوئی نہ کوئی شق نکال کر انہیں رہا کر دیگی۔ پولیس بے گناہوں کو گرفتار کرنے میں مصروف ہے جبکہ ڈاکو بے گناہ شہریوں کو لوٹنے کا فرض نبھا رہے ہیں۔ ہماری پولیس میں ایک تو حافظے کی کمی ہے۔ دوسرا اسکے اپنے چال چلن میں خرابی ہے۔ چور کی داڑھی میں صرف تنکا ہوتا ہے جبکہ ہماری پولیس تو تنکے کی موجد ہے‘ جس طرح جاڑے کے پالے میں چراغ کی طرف دیکھنے سے بھی گرمائش آجاتی ہے۔ اسی طرح جب پولیس آپکے علاقے یا محلے میں کثرت سے گشت کرنا شروع کردے تو آپ سمجھیںدال میں کچھ کالا ضرور ہے‘ کسی کی شامت ضرور آئی۔
لاہور میں ڈاکو لاکھوں روپے لوٹ کر لے گئے۔ لیکن پولیس کہاں پہنچی اسکے پاس تو گاڑیاں ہی نہیں تھیں جناب گذشتہ روز لاہور سے ہارون آباد پولیس گاڑیوں میں بارات گئی ہوئی تھی۔ پنجاب پولیس کی بس نمبر 1836 ایل ای جی میں بارات ہارون آباد کے گا¶ں 10 ون آر گئی تھی۔ صاف ظاہر ہے پولیس ماشاءاللہ بڑی بڑی توندوں کے ساتھ اب گاڑیوں کے بغیر دوڑ تو نہیں سکتی۔ سی سی پی او ذرا اپنی گاڑیوں کی چیکنگ بھی کریں۔ جس طرح نوجوان نسل جدھر منہ ہو ادھر ہی نکل جاتی ہے۔ پولیس بھی ایسے ہی بھاگ رہی ہے۔
ملالہ یوسفزئی کے والدین نے امریکی ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کر دیا
ملالہ کا نام بہادر خواتین کی فہرست میں سرفہرست تھا۔ لیکن مسئلہ صرف ایوارڈ کی وصولی پر پیدا ہوا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کے والدین نے کہاکہ ہم لمبا سفر طے کرکے امریکہ نہیں جا سکتے۔ کیونکہ اگر ہم وہاں چلے گئے تو پھر ملالہ کی صحت پر توجہ نہیں دی جا سکے گی۔ جناب ایوارڈ کی وصولی سے زیادہ ملالہ کی صحت ضروری ہے۔ ملالہ صحت یاب ہو گی۔ تو سارے ایوارڈ خود بخود چل کر آجائیں گے۔ ویسے بھی ملالہ کی جرات و بہادری کے سامنے یہ سارے ایوارڈ کچھ مقام نہیں رکھتے۔ تعلیم کے شعبے میں اب خیبر پی کے میں ہزاروں ملالائیں پیدا ہو چکی ہے۔ علم کی شمع روشن ہو چکی ہے اور علم دشمنوں کو باور کرا رہی ہے کہ....ع
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ملالہ کے والدین کو اب اسکی صحت یابی پر توجہ دینی چاہئے۔ ملالہ جیسے ٹھیک ہو جائے اسے فی الفور واپس ملک لاکر تعلیم کے شعبے میں خدمات لی جائیں۔ کیونکہ پاکستان میں ایسے بہت سارے لوگ ہیں‘ جو ابھی تک خواتین کو تعلیم دلوانا مناسب نہیں سمجھتے۔ ملالہ کو واپس آکر علم کے عَلَم کو لہرانے کیلئے میدان میں اترنا چاہئے کیونکہ علم پھیلے گا تو اجالا ہو گی....ع
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
٭....٭....٭....٭
بھارتی آرمی چیف کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔ جارحیت کے مقابلے کیلئے تیار ہیں: معین حیدر
شیر تو ابھی تک اپنے کچھار میں اتر کر سستائے ہی نہیں۔ ہم 1971ءکا حساب برابر کرنے کیلئے بیتاب ہیں۔ بھارت چھوٹی چھوٹی باتوں پر گیدڑ کی طرح ”کُو کُو“ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن میدان میں کھڑے ہو کر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بھارت کافی عرصے سے گیدڑ بھبکیاں مار رہا ہے۔ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ کس کے اشارے پر بھارت ناچ رہا ہے۔ ہر زمانے میں اسے نچانے والے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پہلے روس نے یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ اس کے بکھرنے کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے وقتاً فوقتاً اسے نچانا شروع کر دیا ہے۔ بھارتی جرنیل میں خود اتنی ہمت نہیں کہ میدان میں آنکلے‘ وہ تو کسی کے کہنے پر واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
دونوں ممالک کی سرحدیں ایک ساتھ ہیں دور کا فاصلہ بھی نہیں اس لئے بھارتی اگر چاہتے ہیں تو دو دو ہاتھ کرنے کیلئے سرحد بالکل نزدیک ہے آجائیں تاکہ روز روز کی تڑھیوں کی بجائے ایک دن ہی کچھ کر لیا جائے۔ ہمارے پرانے فوجی بھی پنجہ آزمائی کیلئے بے چین بیٹھے ہیں۔ بڈھا شیر معین حیدر بھی للکار رہا ہے۔ باقیوں کی بھی یہی حالت ہے اس لئے بھارتی آجائیں۔ اگر انہیں زیادہ شوق ہے....ع
جسے ہو شوق وہ آئے‘ کرے شکار مجھے