تحریک انصاف حکومت نے 2021-22کامتوازن بجٹ پیش کر دیا
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اگلے مالی سال2021-22 کے لیے وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے،یہ موجودہ حکومت کا تیسرا وفاقی بجٹ ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پیش کیا،اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہو نے والے خصوصی اجلاس میں وفاقی بجٹ کی منظوری دی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کامیاب اور متوازن بجٹ پیش کر نے پر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی گئی ہے جبکہ اپوزیشن نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بجٹ عوام دشمن بجٹ ہے جس میں غریب آدمی کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا ہے،اس بجٹ سے ملک میں غربت بڑھے گی اور عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا، اس لئے کووڈ ایمرجنسی فنڈ کیلئے 100ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ کورونا ویکسین کی درآمد پر 1.1ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔اس بار بجٹ میں وفاقی ترقیاتی رقوم کو 630ارب روپے سے بڑھا کر 900ارب روپے مقرر کیا گیا جو 40 فیصد اضافہ ہے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے لیے 8ہزار8 سو ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کا بجٹ پیش کیا۔وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ اپوزیشن اراکین نے شور شرابہ شروع کردیا اور شدید نعرے بازی کی گئی۔ انہوں نے مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی کے نعرے لگائے، اور نشستوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کرنے اور ڈیسک بجانے لگے جس کی وجہ سے اتنا شور ہوا کہ ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ ایک موقع پر تو اسپیکر کو خواتین اپوزیشن ارکان کو حکومتی بینچوں سے ہٹانے کے لیے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کرنا پڑا۔
وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کے استحکام میں وقت لگا، سابق حکومت نے قرض لیکر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے، لیکن موجودہ حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے، صنعت کی ترقی غیرمعمولی رہی ہے۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے آغاز میں پی ٹی آئی حکومت کو ورثے میں ملنے والی خراب معاشی صورتحال اور قرضوں و خساروں کا ذکر کیا تاہم انہوں نے کہا کہ قبرستان میں گڑھے مردے اکھاڑنے سے بہتر ہے کہ باہر نکل کر قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے استحکام کا مرحلہ کافی حد تک مکمل ہوگیا ہے اور اب ترقی و استحکام ہدف ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 3منٹ سے زائد جاری رہنے والی موبائل فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال، ایس ایم ایس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جارہی ہے ۔جس سے آبادی کے بڑے حصے پر ٹیکس نافذ ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ موبائل سروسز پر موجودہ ود ہولڈنگ ٹیکس 12.5فیصد سے کم کرکے 10فیصد کردیا جائے گا اور کچھ عرصے بعد 8فیصد کیا جائے گا۔آئی ٹی سروس کی برآمدات کو زیرو ریٹنگ کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ پھلوں کے رس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کردی گئی۔ قرآن پاک کی اشاعت کے لیے معیاری کاغذ کی درآمد پر بھی چھوٹ دے دی گئی۔ خود تلف ہونے والی سرنجز اور آکسیجن سلنڈرز پر ٹیکس چھوٹ دے دی گئی۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں موبائل فون اور ٹائروں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی جارہی ہے، برآمدات کے فروغ کیلئے خصوصی ایکسپورٹ اسکیم متعارف کروائی جارہی ہے جس کے تحت ایس ایم ایز و دیگر شعبے ڈیوٹی فری درآمدات کرسکیں گے جس کی میعاد بھی دو سال سے بڑھا کر 5 سال کی جارہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہر شہری گھرانے کو کاروبار کے لیے 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے۔ ہر کاشت کار گھرانے کو ہر فصل کی کاشت کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے بلاسود قرضے دیں گے۔ اسی طرح ٹریکٹرز اور مشینی امداد کے لیے 2 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیں گے۔کم لاگت گھروں کی تعمیر کے لیے 20 لاکھ روپے تک سستے قرضے، ہر گھرانے کو صحت کارڈ اور ایک فرد کو مفت تکنیکی تربیت دی جائے گی۔ گھر کی خریدار یا تعمیر میں مدد کے لیے 3 لاکھ روپے سبسڈی دی جارہی ہے جس کے لیے بجٹ میں 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ احساس پروگرام کے لیے 260 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی مینو فیکچرنگ کے لیے کٹس کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ ان گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے 1 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔ مقامی طور پر بنائی گئی 850 سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور VAT ٹیکس ختم کردیا گیا۔ ان پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے کم کرکے ساڑھے 12 فیصد کردی گئی۔آئندہ بجٹ میں کتابوں، رسالوں، زرعی آلات اور 850 سی سی گاڑیوں کے سی بی یو کی درآمد کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنی دیا جارہا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اخراجات میں 14 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے اور اس کی حد7523 ارب روپے رہنے کی توقع ہے۔ آئندہ سال کا مجموعی بجٹ خسارہ 6.3 فیصد ہوگا جبکہ موجودہ سال کا بجٹ خسارہ 7.1 فیصد ہے۔شوکت ترین نے کہا کہ آئندہ مالی سال کیلئے مجموعی ریونیو کا تخمینہ 7909 ارب روپے ہے اور ریونیو میں اضافہ کا ہدف 24 فیصد ہے، ایف بی آر کا ہدف 24 فیصد گروتھ کے ساتھ 5829 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے اور نان ٹیکس ریونیو گروتھ کا ہدف 22 فیصد رکھا گیا ہے، وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2704 ارب روپے سے بڑھا کر 3411 ارب روپے کردیا ہے، صوبوں کو 707 ارب روپے اضافی دیے جائیں گے۔ شوکت ترین نے مزید کہا کہ وفاق کراچی کی بہتری کے لیے 98 ارب روپے دے گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ یکم جولائی سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا، اردلی الانس کو 14000 روپے ماہانہ سے بڑھا کر ساڑھے سترہ ہزار روپے ماہانہ کیا جائے گا، اسی طرح گریڈ ایک سے پانچ کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الانس کو ساڑھے چار سو روپے سے بڑھا کر 900روپے کیا جارہا ہے، کم آمدنی والے افراد پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کیلئے کم سے کم اجرت بڑھا کر 20ہزار روپے ماہانہ کی جارہی ہے، تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔شوکت ترین نے کہا کہ بجٹ میں اخراجات جاریہ 14 فیصد اضافہ کے ساتھ 6561ارب روپے سے بڑھا کر 7523 ارب روپے کیا جارہا ہے، سبسڈیز کیلئے 682 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔تھوک اور پرچون کاروباروں کے لیے پی او ایس مشینیں اس وقت 11 ہزار دکانوں میں نصب ہیں جنہیں 2 سال میں بڑھا کر 5 لاکھ ریٹیل دکانوں میں نصب کیا جائے گا جو ایف بی آر سے منسلک ہوں گی۔ حکومت ان مشینوں کی تنصیب مفت کرے گی۔
وزیر خزانہ کے مطابق کووڈ ایمرجنسی فنڈ کیلئے 100ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ کورونا ویکسین کی درآمد پر 1.1 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے، جون 2022 تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔سی پیک کے 13 ارب ڈالر کے 17 بڑے منصوبے مکمل کر لیے گئے ہیں ۔جبکہ 21 ارب ڈالر مالیت کے مزید 21 منصوبے جاری ہیں، اسٹریٹجک نوعیت کے 28ارب ڈالر کے 26منصوبے زیر غور ہیں، بجٹ میں کراچی لاہور موٹروے کی تکمیل ترجیحات میں شامل ہے۔نئے سال کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 16 فیصد اور جی ڈی پی کا 2.8 فیصد ہے، جس میں سے پاک آرمی کا دِفاعی بجٹ ملکی بجٹ کا 7 فیصد ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 91 ارب روپے، داسو ہائیڈور پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے مختص، دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے 23ارب، مہمند ڈیم کے لیے 6ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں، جب کہ نیل جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے 15ارب روپے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجلی کی ترسیل کے منصوبوں کے لیے 118 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اسلام آباد اور لاہور میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کے لیے ساڑھے سات ارب روپے اور داسو سے 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے ساڑھے آٹھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ری کلیمڈ اور استعمال شدہ لیڈ بیٹریوں پر سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ نافذ کیا جارہا ہے۔وزیر خزانہ کے مطابق جنوبی بلوچستان ترقیاتی پلان کیلئے 20 ارب روپے، گلگت بلتستان سوشو اکنامک ڈویلپمنٹ پلان کیلئے 40 ارب روپے، گلگت بلتستان کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں 47 ارب روپے، آزاد کشمیر کو گرانٹ ان ایڈ کی مدمیں60 ارب روپے، سندھ کو گرانٹ ان ایڈ کی مد19 ارب روپے ، بلوچستان کو این ایف سی کے حصے کے علاوہ گرانٹ ان ایڈ کی مدمیں 10 ارب روپے، نئی مردم شماری کیلئے5 ارب روپے، لوکل الیکشن کے انعقاد کیلئے 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ انسداد جنسی زیادتی فنڈ قائم کیا جارہا ہے جس کے لیے 100 ملین روپے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 66 ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ کے لیے مزید 44 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں بعدازاں 15 ارب روپے اضافہ ہوگا۔ پی آئی اے کے لیے 20 ارب، اسٹیل ملز کے لیے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ مردم شماری کے لیے 5 ارب، مقامی حکومتوں کے الیکشن کے لیے 5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 10 ملین روپے تک سالانہ ٹرن اوور والی گھریلو صنعت کو سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن سے استثنی دے دیا گیا۔ سوتی دھاگہ پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی کو بھی ختم کردیا گیا، صنعتی معیشت کو مزید تقویت دینے کے لیے رواں مالی سال ٹیکسٹائل سے متعلقہ اشیا کی 164 ٹیرف ہیڈنگز پر ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کردیا گیا ہے، 300 سے زائد ایکٹو فارما سیوٹیکل اجزا کو کسٹمز ڈیوٹیز ادائیگی سے چھوٹ دے دی ہے۔شوکت ترین نے بتایا کہ ٹیکس حکام کے آڈٹ اور انکوائری کرنے کے صوابدیدی اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ایف بی آر کی بجائے تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کروایا جائے گا۔
آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کو 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے مقرر کیا گیا جو 40 فیصد اضافہ ہے۔ اس میں سے وفاقی وزارتوں کو 672 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ملے گا، ایوی ایشن ڈویژن کیلئے 4 ارب 29 کروڑ، کابینہ ڈویژن کو56ارب2کروڑ روپے ، موسمیاتی تبدیلی 14ارب روپے، کامرس ڈویژن 30 کروڑ روپے، وزارت تعلیم و تربیت کیلئے9 ارب روپے، وزارت خزانہ 94ارب روپے ، ہائر ایجوکیشن کمیشن 37 ارب روپے ، ہاؤسنگ و تعمیرات کیلئے 14 ارب94 کروڑ، وزارت انسانی حقوق 22 کروڑ، وزارت صنعت و پیداوار 3 ارب، وزارت اطلاعات 1 ارب 84 کروڑ روپے، وزارت آئی ٹی 8 ارب روپے، بین الصوبائی رابطہ کیلئے 2 ارب 56 کروڑ، وزارت داخلہ 22 ارب روپے، امورکشمیر اورگلگت بلتستان کیلئے61ارب، وزارت قانون و انصاف 6 ارب، امور جہازرانی و میری ٹائم کیلئے 4 ارب 95 کروڑ، وزارت انسداد منشیات کیلئے 33 کروڑ، وزارت غذائی تحفظ کے لیے 12 ارب ، نیشنل ہیلتھ سروسز کیلئے 22ارب82 کروڑ، قومی ورثہ و ثقافت کیلئے 4 کروڑ 59 لاکھ، پٹرولیم ڈویژن 3 ارب 7 کروڑ روپے، وزارت منصوبہ بندی 99 ارب 25 کروڑ، سماجی تحفظ 11 کروڑ 89 لاکھ، ریلوے ڈویژن کیلئے 30 ارب روپے، سائنس و ٹیکنالوجی 8 ارب 11 کروڑ، آبی وسائل 110 ارب روپے، این ایچ اے 113 ارب 95 کروڑ روپے، پیپکو کے لیے 53 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مقرر کیا گیا ہے۔ دیگر ضروریات و ایمرجنسی کیلئے 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تقریر کے اختتام پر وزیر اعظم نے وزیر خزانہ کو ان کی نشست پر جا کر شاباش دی۔ قومی اسمبلی اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ اجلاس میں بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں تقریبا 40 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امسال پی ایس ڈی پی میں صحت کے شعبے کو تقویت دینے اور کورونا کی وسیع پیمانے پر تباہی کے اثرات کا ازالہ کرنے کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی طرف توجہ دی گئی ہے۔شوکت ترین نے کہا کہ آئندہ سال کے لیے ہماری ترقیاتی ترجیحات خوراک اور پانی کی دستیابی،توانائی کا تحفظ،روڈ انفرا اسٹرکچر میں بہتری،سی پیک پر عملدرآمد میں پیش رفت،اسپیشل اکنامک زونز کی تعمیر اورآپریشنز،پائیدارترقیاتی اہداف،موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات،ٹیکنالوجی کی مدد سے علوم میں پیش رفت،علاقوں کے مابین پائے جانے والے فرق کا تدارک شامل ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مرتبہ قومی اقتصادی کونسل نے 2 ہزار 135 ارب روپے کے تاریخی ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے، یہ بجٹ این ای سی کی جانب سے گزشتہ سال کے لیے منظور کردہ بجٹ سے 33 فیصد زیادہ ہے۔حویلیاں تھاکوٹ 120 کلومیڑ فیز ون تکمیل کے قریب ہے اور شاہراہ قراقرم کی فیز تو کے 118 کلومیر پر کام جاری ہے۔ ژوب کچلاک روڈ پر کام ہورہا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد لائیو اسٹاک اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مویشوی پال، ماہی گیری، آپباشی کے شعبے کا اعادہ کیا جائے گا جبکہ ہم نے اگلے سال زراعت کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے ہیں۔علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لیے ایک ارب روپے مختص کرنے کی تجویز شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہورہا ہے اور وزیراعظم عمران خان چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لیے خواہاں ہیں۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،