سر راہے
ایف بی آر نے مرحوم شخص کو 8 لاکھ روپے ٹیکس کا نوٹس بھیج دیا
وطن عزیز کے سرکاری ادارے اور محکمے اتنے فرض شناس اور پابند ہیں کہ وصولیوں کیلئے قبروں تک پیچھا کرتے ہیں جیسا ایف بی آر نے کیا ہے کہ 29 نومبر 2014 کو انتقال کرجانے والے گلریز راشد نامی شخص کے گھر 8 لاکھ روپے ٹیکس کا نوٹس بھیج دیا۔ اب ظاہر ہے وہ مرحوم ومغفور ٹیکس نادہندہ تو ہوں گے لیکن کمال دیکھیں کہ ان کی وفات کے سات سال بعد ایف بی آر کو یاد آیا کہ ان کے ذمے 8 لاکھ روپے ہیں تو فوری نوٹس بھیج دیا۔ ویسے مرحومین سے ’’وصولیوں‘‘ کیلئے ایف بی آر کو ایک الگ شعبہ بنا دینا چاہئے اس شعبے میں ایف بی آر کے افسروں اور اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ہر محلے کے امام مسجد اور ہر قبرستان کے گورکن کو بھی ’’غیرسرکاری ممبران‘‘ کے طور پر شامل کرلیا جائے اس سے ایف بی آر کو کسی کے وفات پاجانے کے 7 سال بعد والی خفت بھی نہیں اٹھانا پڑے گی کیونکہ خدانخواستہ جو نہی کوئی شخص فوت ہوگا توامام مسجد، گورکن اور سپیشل برانچ یا خفیہ پولیس کا کوئی اہلکار ایف بی آر کو فوری اطلاع دے گا ۔ یوں ایف بی آر کے اہلکار ’’منکرنکرین‘‘ سے پہلے پہلے اپنے رجسٹر اور کھاتے اٹھائے اس شخص کے جنازے میں جاپہنچیں گے۔ جونہی امام قرض کی ادائیگی کا شرعی مسئلہ بتائے گا ، ایف بی آر والے اس کا کھاتہ کھول کر سامنے رکھ دیں گے۔ اس سے موقع پر ہی ’’وصولی‘‘ ہوجائے گی اور ورثاء کو عدالت سے ریلیف لینے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ بہرحال تفنن اور تکلف برطرف، ہمارے سرکاری محکموں، قومی اداروں کو جگ ہنسائی جیسے اقدامات سے گریز ہی کرنا چاہئے کیونکہ ایسے اقدامات کے باعث نادہندگان سے وصولیاں تو نہیں ہوسکتیں البتہ ایف بی آر کو مزید ’’شہرت‘‘ مل جائے گی ۔اگر مطمح نظر یہی ہے تو پھر الگ بات ہے کہ؎
ہم طالب شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
٭٭٭٭٭
گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ
گدھو ں سے باربرداری کا کام لیا جاتا ہے، تاہم زبان و ادب میں گدھے کے حوالے سے کئی محاورے بھی زبان زد عام ہیں جیسے ’’گدھا گھوڑا ایک بھائو‘‘ جس کا مطلب ہے کہ اچھی بری چیز کی ایک ہی قیمت ہے۔ اسی طرح ایک اور محاورہ ہے کہ ’’گدھوں سے ہل چلیں تو بیل کیوں بسائیں‘‘ (یعنی جب نادانوں سے کام چلتا ہے تو پھر ہنرمندوں اور دانائوں کو کون پوچھتا ہے) اسی محاورے کے تناظر میں گدھوں کی تعداد کا ایک لاکھ بڑھ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ’’ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے‘‘ والی بات بھی کسی حد تک حقیقت لگتی ہے۔ خیر گدھوں کی افزائش اگر ہوتی ہے اور ایک سال میں 55 سے 56 لاکھ ہوگئے ہیں تو وہ بے کار تو نہیں، ملک کے اندر بھی گدھوں سے کام لیا جاسکتا ہے اور باہر بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ البتہ گھوڑے اور خچر کی افزائش نہ ہونا بھی تشویشناک اورباعث حیرت ہے کیونکہ ارطغرل ڈرامے کی پاکستان میں مقبولیت کے بعد گھوڑ سواری اور گھوڑے پالنے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دے کر کئی مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ بہرحال اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ گدھے گھوڑے میں فرق کرتی ہے یا نہیں۔ اسی سے ہی دانائی اور بینائی کا پتہ چلتا ہے لہٰذا گدھوں کا کام گدھوں اور گھوڑوں کا گھوڑوں سے ہی لیا جانا چاہئے…
٭٭٭٭٭
کرونا ویکسین سرٹیفکیٹ دکھانے پر پی آئی اے کی طرف سے کرایوں میں 10 فیصد رعایت
پی آئی اے (پاکستان ایئر لائنز) کی ا’’نعامی سکیم ‘‘ خوش آئند ہے اس سے کرونا ویکسین لگوانے کا رجحان پیدا ہوگا کیونکہ جو لوگ ملک کے اندر بذریعہ جہاز آتے جاتے ہیں ان کو پی آئی اے کے کرائے میں 10 فیصد رعایت ملے گی تاہم پی آئی اے کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے پائلٹس اور دیگر عملے کے تمام افرا د کو ویکسین لگوائے اور پھر پائلٹ اور دیگر عملے کے کرونا ویکسین کے سرٹیفکیٹ متعلقہ پرواز کے دروازے پر چسپاں کرے تاکہ لوگ بے خوف وخطر جہاز میں سوار ہوں۔ پی آئی اے انتظامیہ کو یہ بھی تصدیق کرلینی چاہئے کہ عملے کے کرونا سرٹیفکیٹس کا حشر پائلٹوں کے لائسنسوں اور ڈگریوں جیسا نہ ہو کیونکہ عوامی اعتماد بحال کرنے اور لوگوں کو اندرون بیرون ملک فضائی سفر کیلئے پی آئی اے کی طرف راغب کرنے کا یہ سنہری موقع ہوگا ویسے اگر پی آئی اے ’’باکمال لوگ،لاجواب سروس‘‘ کا اپنا سلوگن برقرار رکھتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔ اس میں کرونا کا کوئی قصور نہیں، یہ سب کچھ تو بہت پہلے ہی ہوچکا ہے۔
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزسیاہ
دکھایا ہے خود میرے گھر کے چراغوں نے مجھے
٭٭٭٭٭
امریکی صدر کو اہلیہ کی ڈانٹ
’’بیگمات‘‘ ڈانٹ ڈپٹ تک رہیں تو کوئی حرج نہیں ایسی ڈانٹ سے نہ صرف ’’شوہروں‘‘ کو حوصلہ ملتا ہے بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں کہ صرف ان کے شب و روز پر ہی ’’بیگمات‘‘ کی نظر نہیں بلکہ ان کا ہر لمحہ اور ان کی ہر حرکت ’’بیگمات‘‘ کی توجہ پوری طرح اپنی طرف مبذول کئے رکھتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ ہوا۔ گزشتہ دنوں وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ برطانیہ کے دورے پر تھے۔ رائل ایئرفورس کے مائلڈن ہال میں خطاب کے دوران جوبائیڈن کو فوجیوں کے ساتھ مشغول دیکھ کر جل بائیڈن نے انہیں مذاقاً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ان کے خطاب پر توجہ دیں جس پر امریکی صدر توجہ سے اپنی اہلیہ کا خطاب سننے لگے۔ بعدازاں جب جوبائیڈن کے خطاب کا مرحلہ آیا تو توجہ سے خطاب سننے پر انہوں نے اہلیہ کو سلیوٹ کیا۔ اس واقعہ سے جہاں ’’بیگمات‘‘ کی بالادستی کا تاثر ابھرتا ہے وہیں ’’شوہروں‘‘ کیلئے فرمانبرداری کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ اب امریکی صدر کی اہلیہ کی دیکھا دیکھی کہیں پاکستان میں بھی ’’بیگمات‘‘ مکالمہ بازی کی ایسی مشق نہ شروع کردیں ورنہ شوہر یا بیگم دونوں میں کسی ایک کو دوسرے کی بالادستی کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑیں گے۔ اس لئے ’’بیگمات‘‘ امریکی خاتون اول کی ڈانٹ کو سنجیدہ نہ لیں بلکہ مذاق ہی سمجھیں کیونکہ
وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں
محبت کریں،خوش رہیں، مسکرا دیں
٭