ایک بھیانک واردات
گزشتہ سے پیوستہ سال لاہور کی ایک معروف اکیڈمی نے تین ماہ میں72 کروڑ کمایاتھا تب فیس 36 ہزار فی طالبعلم تھی اور مذکورہ اکیڈمی نے اس سال 20 ہزار طالبعلموںکو ان رو ل کیا تھا اور یقیناً اس رقم پر کوئی ٹیکس بھی نہیں دیا ہوگا کیونکہ’’ تعلیم خدمت خلق ‘‘ جو ہوئی۔کیوں نہ تنقید کریں دور افتادہ علاقوں کے بچے اور ان کے والدین اہلِ لاہور پر ۔ آئیے لاہور کا تقابلی جائزہ صرف تونسہ شریف سے لیتے ہیں کیونکہ پہلے وزیر اعلٰی لاہور سے تعلق رکھتے تھے ۔ اورموجودہ وزیر اعلی تونسہ شریف سے ہیں ۔
انٹری ٹیسٹ کی تیاری کیلئے جو فیس ایک بچہ لاہور میں ادا کرتا ہے کم و بیش اتنی وہی فیس تونسہ، ہوا، جام پور ، فاضل پور،کوٹ مٹھن،روجھان ،علی پور ، لیاقت پور ، ترنڈہ محمد پناہ ،صادق آباد اور فورٹ عباس جیسے انتہائی پسماندہ اور دوراز علاقوں کے بچے بھی ادا کرنے پر مجبور ہیں تو پھر اصل فرق کہاں ہے۔ تیاری کیلئے اکیڈمیاں صرف ملتا ن اور بہاولپور میں ہیں۔ لاہور کا بچہ 30 سے 50ہزار فیس دے کر چار گھنٹے بعد واپس گھر پہنچ جاتا ہے اس کا نہ ہوسٹل کاخرچہ ، نہ کھانے پینے کے اخراجات ۔ اب اول الذکر پسماندہ علاقوں کے لوگ اپنے بچوں کو لاہور یا ملتان داخل کروائیں جہاں ایف ایسی سی کا بچہ تو اکیلا ہوسٹل میں رہ سکتا ہے لیکن بچی کیسے رہے اور رہے تو کیسے آئے جائے ۔لہذا بچی کے ساتھ اس کے والدین کو بھی اپنا گھر بار اور سارا نظام چھوڑ کر دو ماہ کیلئے شفٹ ہونا پڑتا ہے ۔
ملتان میں درجنوں نہیں سینکڑوں پرائیوٹ ہوسٹل ہیں جن کی فیس، کھانا ودیگر اخراجات کے علاوہ اگر ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی شامل کردیں تو یہ بھی25 سے 30 ہزار مہینے سے کم نہیں۔ لہٰذا لاہور کا بچہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری 30سے 50 میں کرلیتا ہے۔دور افتادہ اور پسماندہ علاقے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ان غریبوں کو یہی ٹیسٹ ایک لاکھ میں پڑتا ہے۔ناانصافی کرنے والی قیادتیں برباد نہیں ہونگی تو اور کیا ہوگا۔میں ایک ایسے نچلے درجے کے سرکاری ملازم کو جانتا ہوں جو جنوبی پنجاب کی ایک پسماندہ تحصیل سے 20کلومیٹر دور واقع ایک قصبے کا رہنے والا تھا اور اپنی بیٹی کے ہمراہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کیلئے لاہور منتقل ہواتھا۔ بیٹی دو ماہ کیلئے جوہر ٹاؤن کے ایک ہوسٹل میں رہتی تھی اور وہ خود جنوبی پنجاب کے مزدوروں کے ساتھ ڈھابے میں سوتا تھا اور اپنا خرچہ پورا کرنے کیلئے شوکت خانم ہسپتال کے سامنے پاپ کارن فروخت کرتا ۔ یہ ایک کہانی تو میری آنکھوں کے سامنے آئی مگر ہزاروں ایسے لائق بچے ہیں جو انٹری ٹیسٹ کی فیس اور بڑے شہروں میں رہ کر تیاری نہ کرسکنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم کردئیے گئے ۔ جنہیں ڈاکٹر یا انجینئر بننا تھا وہ شاید ظلم کے اس فیصلے کے ہاتھوں مجبو رہو کر کہیں کلرک بھی بھرتی نہ ہوسکے ہوں۔ ہمیں قرآن مجید ’’سورۃ التکاثر ‘‘ کی آیات ترجمہ اور تشریح یاد نہیں ہے ۔ یہ تشریح تو روزِ محشر ہمیں آشکار ہو گی ۔ تب سابقہ خودساختہ خادمِ اعلی کیا جواب دیں گے؟اور تین سال گزرنے کے باوجود اگر موجودہ وزیر اعلیٰ جو خود تونسہ شریف سے تعلق رکھتے ہیں اپنے اختیارات کا فوری استعمال کرتے ہوئے اس ظلم کو ختم نہیں کرسکے تو یقیناً روز محشر وہ بھی اسی صف اسی صف میں کھڑے ہوں گے جس صف میں بہت آگے سابقہ خودساختہ خادمِ اعلی اپنا اعمال نامہ ہاتھ میں تھامے کھڑے ہوں گے ۔
اب ایف ایس سی کے بچوں کو ایک اورسنگین مسئلہ درپیش ہے ایک طرف انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آرہی کہ آئے رو زنیا فیصلہ سننے کو ملتا ہے مگر انٹری ٹیسٹ کیلئے ’’ایجوکیشن مافیا‘‘ نے ابھی داخلے شروع کردئیے ہیں کہ انہیں تو کوئی پوچھنے والا ہے نہیں ۔ اب ایک طرف بچے ایف ایس سی کی تیاری کریں اور ساتھ ساتھ انٹری ٹیسٹ کی بھی۔کُفر کی حد تک بڑھتے ہوئے ظلم پر بھی اگر ہمارے ارباب اختیار خاموش رہیں گے تو ان لاکھوں معصوم طالبعلموں کی بددعائیں اور آہیں ان کیلئے آخر ایک نہ ایک دن طوفانِ نوح ہی ثابت ہوں گی۔ (ختم شد)