میں اور میری جنت
5 جون 2021ء کو ہماری جنت نے ہم سے ہمارے خاندان اور دنیا سے منہ موڑا، اسی روز ہم نے اپنی جاں سے عزیز تر ہستی کو لحد میں اتارا۔ ماں جی کو خاک کے سپرد کئے آٹھ دن گزر گئے ذہن ابھی تک ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہم اپنی والدہ سے جدا ہوگئے ہیں۔ والد محترم (چوہدری عبداللہ ) 27 مارچ 2014ء کو دارالفناء سے دارلبقاء منتقل ہوئے اس روز سے پانچ جون کی صبح تک ماں کی صحت ‘ سلامتی اور خوشی زندگی کا مقصد اول رہا۔ ماں جی کو پھولوں کی طرح خوشبؤں اور مہکاروں میں رکھا۔ کیا معلوم تھا کہ جو وجود برکت وسعادت اور سیادت کا مرکز ومحور ہے وہ اچانک ہمارا ساتھ چھوڑ دے گا، مرزا غالب نے خوب کہا:
مقصود ہو تو خاک سے پوچھو کہ اے لعئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراماں کیا کئے…!
ہفتہ کی ڈھلتی شام سیکٹر ایچ ایٹ کے قبرستان میں ہم اپنی والدہ کو مٹی کی چادر اڑا رہے تھے کہ عین اسی لمحے ایک دوست نے کندھے پر ہاتھ رکھ جو جملہ بولا اس کے لفظوں نے سینہ چیر ڈالا ’’عبید صاحب! نوکری ختم ہوگئی آج تم jobless ہوگئے ! واقعی پانچ جون کو میری نوکری کا آخری دن تھا! میں بتادوں دوست اور احباب اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں میں نے اپنے امی ابو کی خدمت نہیں نوکری بلکہ چاکری کی! یہی چاکری میرا تعارف ‘ میری پہچان اور آخرت کا توشہ ہے۔
میرے والدین کا تعلق ضلع امبالہ ( بھارت) سے تھا نانا محترم محمد اسحق ریلوے کے ملازم تھے تقسیم کے وقت والدین مہاجرین خاندانوں کے ساتھ پہلے سرگودھا پھر کراچی منتقل ہوئے جب وفاقی دارلحکومت کراچی سے نئے شہر اسلام آباد منتقل ہوا تو والدین اسلام آباد چلے آئے۔ والدین کی شادی کی تاریخ 13 نومبر 1960ء ہے میرے ابو پہلے پاک ڈبلیو ڈی میں ملازم ہوئے پھر سی ڈی اے میں ٹرانسفر ہوئے وہ یہاںبھرتی ہونے والے پہلے بیج میں شامل تھے۔ 28اکتوبر 1969کو انہیں اسلام آباد کے نئے تعمیر شدہ سیکٹر جی سیون ون میں سی ٹائپ کا مکان الاٹ ہوا اس وقت میری عمر چھ برس اور میں ون کلاس میں زیر تعلیم تھا۔ والد محترم پندرہ برس جی سیون میں رہائش پذیر رہے۔ کیرئیر سکول کے آغاز کا سورج اسی گھر سے طلوع ہوا ۔ جب2011ء میں درسگاہ ستارہ مارکیٹ میں کرایہ کی بلڈنگ میں منتقل ہوئی تو والدین کی خوشی دیدنی تھی ۔سکول آتے جاتے نونہالوں کو دیکھ کر ان کی آسودگی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور ہماری خوشی اور عید یہ تھی کہ والدین خوش ہیں لیکن پھر شائد کسی کی بری نظر لگ گئی۔ مارچ 2014ء میں والد محترم اللہ کو پیارے ہوئے اور سات برس دو ماہ اور آٹھ دن بعد والدہ ماجدہ جنت مکیں ہوگئیں۔ اب زندگی بے مزا‘ پھیکی اور بوجھ نظر آتی ہے تاہم بے قرار دل کو یہ جان کرسکون کی روشنی مل جاتی ہے یہ اللہ کی رضا اور اس کا حکم ہے ہم کون ہوتے ہیں رب کائنات کی حکم عدولی کرنے والے… مجھے مرحوم شوکت مہدی کا یہ شعر سے بہت تقویت دیتا ہے۔ کیا خوب انداز تھا شاعر کا!
پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مجھے
ماں نے کیا ہواہے سپرد خدا مجھے
اللہ پاک سب کے والدین کو صحت‘ خوشی اور زندگی سے منسلک رکھے اور جن کے ماں باپ آسودہ خاک ہیں انہیں جنت کے پسندیدہ مقام کا مکین بنا دے ‘ آمین حضرت امام زین العابدینؓ سے پوچھا گیا حضرت ہم نے کبھی آپ کو آپ کی والدہ کے ساتھ کھانا کھاتے نہیں دیکھا، اما م زین العابدینؓ نے جواب مرحمت فرمایا میں اپنی والدہ کے ساتھ کھانا کھا ئوں اور کوئی نوالہ والدہ سے قبل توڑ لوں تو میں اس عمل کو بھی بے ادبی سمجھتا ہوں ۔
یہ والدہ کے احترام و کریم کی کیا خوب مثال ہے۔ جی سیون میں عبداللہ ہاوس سے میرے والد محترم کا جنازہ اٹھا اس گھر سے والدہ جی سفر آخرت کے لیے رخصت ہوئیں یہ گھر کل بھی والد محترم سے منسوب تھا اور آئندہ بھی ان سے معنون رہے گا ہم تو محض ’’کرایہ دار،، ہیں اللہ کریم مرحومین پر رحمتوں کی مسلسل بارش کرے ـآمین