سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیوں نہیں کیا ، تحقیقات کریں: چیئرمین سینٹ
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ)سینٹ چیئرمین صادق سنجرانی نے اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کو احکامات جاری کیے ہیں کہ کہ اس حوالے سے مکمل تحقیقات یقینی بنائی جائیں کہ وفاقی کابینہ اور وزارتِ صحت کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کی بنا پر سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے متعلقہ حکام کی نشاندھی کی جائے۔ سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ نہ کرنے کے حوالے سے سینٹر سیف علی خان نے اس ایشو کو سینٹ میں اٹھایا اور سینٹ کو آگاہ کیا کہ وفاقی کابینہ نے گزشتہ سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو تجاویز دیں تھیں کہ کہ وزارت صحت کی سفارشات کے پیش نظر ٹوبیکو سیکٹر پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ یقینی بنایا جائے۔تاہم اس حوالے سے وفاقی کابینہ اور وزارتِ صحت کے احکامات کو نظر انداز کیا گیا اور سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔سینٹر سیف علی خان نے کہا کہ دنیا بھر کے مقابلے میں پاکستان میں سگریٹس کی قیمتیں بہت کم ہیں اور اس ضمن میں طاقتور ٹوبیکو کمپنیز اہم ترین رکاوٹ ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہو نے کے برابر ہے اور اس حوالے سے اس معاملے کو اسٹینڈنگ کمیٹی کو ریفر کیا جائے تاکہ اس متعلقہ فورم پر وزارتِ صحت اور ایف بی آر کے حکام سے اس بارے پوچھ گچھ یقینی بنائی جا سکے۔ بیرسٹر سیف نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے مزید استدعا کی کہ اس حوالے سے بھی تحقیقات کی جائیں کیونکہ کچھ اعلی سرکاری حکام ٹوبیکو ملٹی نیشنل کمپنیز کیساتھ ملی بھگت سے کام کر رہے ہیں اس حوالے سے سینٹر سیف علی خان نے کہا کہ سابق چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا کے ایک قریبی رشتے دار پاکستان ٹوبیکو کمپنی میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے اور یہ وجہ ہے کہ یہ بڑے افسران اس سیکٹر کے خلاف اایکشن لینے کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیںاور جو بھی ان ملٹی نیشنل کمپنیز کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اسے نتایج کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ لوگ آپنی پہنچ کے حوالے سے بہت طاقتور ہیںاور مجھے قوی امید ہے کہ اس سیکٹر کے خلاف آواز اٹھانے پر مجھے بھی کسی وقت ایف بی آر کی جانب سے نوٹس مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس سیکٹر سے 2012-13 میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 17.5 ریٹ کی شرح سے نوے بلین روپے اکھٹے کیے جب کہ گزشتہ سال جب اس ریٹ کی شرح تینتیس فیصد کو چکی ہے حکومت نے صرف 110 بلین روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں حاصل کیے۔انہوں نے کہا کہ بیشتر ملٹی نیشنل کمپنیز ٹیکس سے بچائو کے لیے اپنے سگریٹس خود بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے پاکستان میں فروخت کرتی ہیں جس کے باعث قومی خزانے کو ہر سال پچیس ارب تک نقصان ہوتا ہے۔سینٹر سیف علی خان نے پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک رپورٹ کا تزکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر سال تمباکو نوشی کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ لوگ اموات کا شکار ہوتے ہیں اور ملک نوجوانوں میں سگریٹ کی کم قیمت کی وجہ سگریٹ نوشی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہیانہوں نے کہا کہ سگریٹ نوشی کرونا سے بڑا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی دو بڑے سگریٹ برانڈ مالبورو اور بینسن اینڈ ہیجز ریگولیشن کرتا ہے۔ اور ہر سال اربوں روپے منافع کماتے ہیں اور گزشتہ پانچ سالوں میں ان کے منافع کی شرح کئی گناہ بڑھ چکی ہیلیکن اگر ہم انکے ریونیو کو دیکھتے ہیں تو یہ اسی جگہ قایم ہے جو جہاں پانچ سال پہلے تھا۔ا نہوں نے دنیا میں گزشتہ سال کے حوالے سے سگریٹ کی قیمتوں کے حوالے سے کہا کہ مارلبورو کے ایک پیکٹ کی قیمت آسٹریلیا میں بیس ڈالر سے زائد ہے جبکہ نیوزیلینڈ میں اسی سگریٹ پیکٹ کی قیمت اٹھارہ ڈالر ہے اور روس میں اسی پیکٹ کی قیمت ڈھائی ڈالر ہے اور پاکستان میں اسی سگریٹ پیکٹ کی قیمت ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔اس حوالے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیز پاکستان میں ٹیکس ادا نہیں کر رہے اور عوامی صحت سے کھیل رہے ہیں۔