حمزہ شہباز بھی گرفتار ہو گئے ہیں، ان کے والد بزرگوار شہباز شریف بھی کرپشن کیسز میں اندر باہر آتے جاتے رہتے ہیں، تایا محترم میاں نواز شریف سزا کے بعد جیل میں ہیں، محترمہ مریم نے بھی کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں یوں پورا خاندان کہیں نہ کہیں لوٹ مار میں ملوث نظر آتا ہے۔ حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کی وجہ سیاہ دور کی کرپشن ہے۔ وہ دور کرپشن جس کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ وہ کرپشن اور لوٹ مار جس کی وجہ سے آج ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے۔ اس خاندان کی لوٹ مار کی وجہ سے ملکی خزانہ خالی ہوا، ملک قرضوں میں جکڑا گیا، معیشت تباہ ہو گئی اور آج عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ یہ ان سیاست دانوں کی گندی سیاست، اقربا پروری اور لوٹ مار کا نتیجہ ہے کہ عام پاکستانی کی زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ یوں تو شریف خاندان کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ انہوں نے برسوں ملکی خزانے کو لوٹا ہے، اقتدار اور اختیارات کو ذاتی فائدے اور اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ خاندان جب سے سیاست میں آیا اس وقت سے آخری دور حکومت تک کرپشن کا بازار گرم رہا ہے۔ اسی دہائی کے آخری سال، نوے کی دہائی اور پھر دوہزار آٹھ سے دوہزار اٹھارہ تک لوٹ مار کی ایسی داستانیں ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ اتنے ظالم ہیں کہ لوٹ مار کے مقدمات میں گرفتار ہونے کے بعد بھی سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ ملک کے سب سے بڑے "شرفاء " کی خود غرضی کی انتہا ہے۔ کیا "شرفاء " ایسے ہوتے ہیں، کیا عوام کے محسن ایسے ہوتے ہیں؟
"شرفاء " کے دور میں خدمت کے نام پر عوام کے ارمانوں کا خون کیا جاتا رہا، عوامی فلاح کی آڑ میں خزانے کو لٹایا جاتا رہا، یہ اپنی جائیدادیں بناتے رہے، بینک بیلنس بڑھاتے رہے، پاکستان کا پیسہ باہر جاتا رہا اور ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہا، طویل عرصہ حکومت میں رہنے کے باوجود کرپشن روکنے کے لیے اقدامات نہ کرنا شریف خاندان کی بدنیتی کا واضح ثبوت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کا دعویدار شریف خاندان خود بیرون ملک سرمایہ کاری میں مصروف رہا۔ کبھی سعودیہ کبھی متحدہ عرب امارات اور کبھی انگلینڈ ہر جگہ کرپشن کے پیسے سے کاروبار کرتے رہے۔ "شرفاء " کے دور حکومت میں ملکی ادارے خسارے میں جاتے رہے اور انکے ذاتی کاروبار منافع کماتے رہے۔دہائیوں کی کرپشن کے بعد اب یہ شکنجے میں آئے، بدقسمتی ہے کہ برسوں لوٹ مار کرنے والے "شرفاء " آج بھی کرپشن کیسوں کو سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں، آج بھی عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اپنی جائیدادوں پر اپنے ہی انٹرویوز کا دفاع کر لیں یا ان کی وضاحت کر دیں تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ بیرون ملک جائیدادوں کی حیثیت سے انکار کرنے والے اس کے مالک بھی ہیں لیکن سچ بولنے کو تیار نہیں۔
حمزہ شہباز شریف بھی اس کرپشن میں برابر کے شریک ہیں۔ بالخصوص دوہزار آٹھ سے دوہزار اٹھارہ تک وہ پنجاب میں ہونیوالی کرپشن کے سرغنہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔ صوبے کے تمام معاملات کی نگرانی وہ خود کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ساری کرپشن لوٹ مار انکی نگرانی میں ہوتی تھی تو یہ غلط نہ ہو گا۔ اب وہ نیب کی حراست میں ہیں۔ وہ دس سال میں ہونیوالی لوٹ مار کے مرکزی کردار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ انیس سو ننانوے سے "شرفاء " کی وطن واپسی تک اور اس کے بعد بھی ہونیوالے ہر این آر او کے بھی عینی شاہد ہیں۔ آج جو "شرفاء " این آر او نہ لینے کی بات کرتے نظر آتے ہیں انکا سارا سیاسی کیرئیر ہی این آر او کے گرد گھوم رہا ہے۔ ان کی سیاست این آر او سے شروع ہو کر این آر او پر ہی ختم ہوتی ہے۔ مشرف کے دور حکومت میں ملک سے باہر جانے کی بات ہو یا وطن واپسی ہر آمد ہر روانگی این آر او کی مرہون منت ہے۔ اب حمزہ شہباز کو لوٹ مار کا جواب دینا ہے، انہیں اس کرپشن کا حساب بھی دینا ہے۔
حمزہ شہباز کی گرفتاری سے پہلے آصف زرداری گرفتار ہوئے ہیں، گذشتہ روز بانی متحدہ الطاف حسین کو بھی لندن میں جان بوجھ کر جرائم، تشدد پر اکسانے اور معاونت کے شبہے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے مطابق الطاف حسین پر جرائم پر اکسانے کا مقدمہ چلے گا، بھلے جرم کا ارتکاب ہوا یا نہیں۔ تین سرکردہ سیاست دانوں کی مختلف کیسوں میں گرفتاری سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ غیر معمولی بات نہیں ہے۔ آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز تو کرپشن کے مقدمات میں گرفتار ہوئے ہیں البتہ الطاف حسین کا مقدمہ مختلف نوعیت کا ہے۔ تاہم الطاف حسین انگلینڈ میں اس موسم میں گرفتار ہوئے ہیں جب پاکستان میں بھی گرفتاریوں کا موسم عروج پر ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایسے تمام منفی کرداروں کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔
حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری ایک اہم پیشرفت ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقت ور طبقے کا احتساب ہو رہا ہے، یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ بڑے لوگوں کو احتساب کے عمل سے گذرنا پڑ رہا ہے، تاریخ رقم ہو رہی ہے، احتساب ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
ان گرفتاریوں کو دیکھتے ہوئے ہر ذی شعور یہ سوال کرتے دکھائی دے رہا ہے کہ کیا یہی احتساب ہے کہ بااثر لوگ گرفتار ہوں پھر ضمانت پر رہا ہوں پھر وہ ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے باعزت بری ہو جائیں، کیا طاقتور کا احتساب بھی "سلیکٹڈ" ہوتا ہے، کیا ایسے افراد کی گرفتاری پھر ضمانت اور آخری مرحلے میں باعزت بری ہونے سے ملک میں کرپشن رک جائے گی؟؟؟
نہیں یقینا نہیں، لٹیروں کی گرفتاری کے بعد ان کے جرائم کو ثابت کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل مرحلہ ہے۔ جتنا وقت انکی گرفتاریوں میں لگا آئندہ مرحلہ تیز تر ہونا چاہیے۔ جرم کو ثابت کرنا گرفتاری سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اس گرفتاری کے بعد اب سارا بوجھ نیب پر ہے۔ گیند نیب کے کورٹ میں ہے۔ عوام کی نظریں نیب پر ہیں، قوم کی امیدیں نیب سے وابستہ ہیں۔ قوم کی امیدوں کا محور و مرکز نیب ہے۔
قارئین کرام موجودہ حالات میں نیب کا کردار انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ عوام کا اصل مسئلہ لٹیروں سے دولت کی واپسی ہے، ملکی خزانے کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے اس پیسے کی واپسی ہے۔ ان حالات میں ایسے کیسز ہمارے لیے مارو یا مر جاؤ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر کے لیے لازم ہے کہ وہ کیس کو درست ثابت کرے اور لٹیروں کو قانون کے مطابق سخت سخت سزا کا راستہ ہموار ہو اور ان مفاد پرستوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے۔ خدانخواستہ کمزور تفتیش کی گئی اور مالدار افراد منفی حربوں سے سزاؤں سے بچنے میں کامیاب ہو گئے تو عوام کا نظام انصاف سے اعتماد ختم ہو جائے گا۔ یہ کیسز ملکی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں یا تو ہم نئے پاکستان کی تعمیر شروع کر سکتے ہیں یا پھر واپس اسی فرسودہ نظام میں چلے جائیں گے جو برسوں سے عوام کا خون چوس رہا ہے۔ دعا ہے کہ ملک لوٹنے والے عبرتناک انجام کو پہنچیں اور ہم ریاست مدینہ کے خواب کو تعبیر دینے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38