بدھ ‘ 8؍ شوال المکرم 1440ھ‘ 12؍ جون 2019ء
حکومت کو بجٹ بنانا آتا ہی نہیں۔ زرداری
یہ تو آج پتہ چل جائے گا کہ حکومت کو کیا کرنا آتا ہے اور کیا نہیں۔ نیا بجٹ کیسا ہو گا۔ اس کا فیصلہ عوام نے بجٹ دیکھنے کے فوراً بعد کرنا ہے جو سب کو معلوم ہو جائے گا۔ ان باتوں سے ہٹ کر مگر ایک بات تو حکومت کو ضرور آتی ہے وہ ہے حزب اختلاف کے سیاستدانوں کو جن پرمقدمات ہیں انہیں فی الفور اندر کرنا یعنی جیل بھجوانا۔ ابھی گزشتہ روز زردار ی صاحب اور اب حمزہ شہباز کی گرفتاری کے بعد لگ رہا ہے کہیں کل شہباز شریف کو بھی اندر کر کے حکومت ہیٹ ٹرک نہ مکمل کر لے۔ موڈ تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ …ع
’’گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے،،
اس لیے اب بجٹ کے بعد دیکھنا ہے حکومت کیا کرتی ہے۔ اگر بجٹ عوام دوست ہوا تو پھر خیر ہی خیر ہے۔ ورنہ …؎
ہم تم ہوں گے بادل ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا
حزب اختلاف بجٹ کے مارے سر پھرے عوام کو ساتھ ملا کر واقعی سڑکوں پر دما دم مست قلندر کرتی نظر آئے گی اور حکومت کو اپنا دھرنے والا سین یاد آ جائے گا۔ ویسے اس وقت موسم کے ساتھ سیاسی موسم بھی گرم ہو رہا ہے۔ گرفتاریاں ا ور بجٹ دونوں کا بوجھ عوام کے سر پر ہی پڑنا ہے کیونکہ مہنگائی کا ماتم کرنا اور گرفتاری کیخلاف مظاہرے کرنا غریب عوام ہی کے ذمہ ہے۔ اے سی میں رہنے والے لیڈر صرف بیان جاری کرتے رہیں گے۔
٭٭٭٭
تھل میں بھکر ایکسپریس کی 5 بوگیاں اُلٹ گئیں
نجانے کیا بات ہے اس بار شیخ رشید کو ریلوے کی وزارت راس نہیں آ رہی۔ شاید وہ خود بھی ریلوے سے زیادہ محکمہ داخلہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی ریلوے پر کم اور داخلی معاملات پر توجہ کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ اسی لیے آج کل ٹرینوں میں پٹڑی سے اُترنے اور بوگیوں کے پٹڑی سے الٹنے کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے حادثات کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں ساری کہانی سامنے آ جائے گی۔ کجا شیخ رشید ن لیگ کے دور میں ٹرین کے کسی حادثے پر یا ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر پر وزیر ر یلوے سے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے نظر آتے تھے۔ آج وہ اپنے استعفے کے بارے میں چپ ہیں۔ الٹا ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر اور حادثات کی ذمہ داری افسروں پر ڈال کر اپنی گردن بچاتے پھر رہے ہیں۔ ان کی اس پالیسی پر ریلوے افسران اب اجلاسوں میں بھی ترکی بہ ترکی سنانے سے باز نہیں آتے۔ جس پر شیخ جی کافی برہم بھی ہیں مگر کیا ہو سکتا ہے اب کہیں وزیر اور افسروں کی اس خانہ جنگی میں ریلوے کی حالت مزید نہ بگڑ جائے۔ ویسے بھی تاخیر اور حادثوں کی وجہ سے لوگوں کو سعد رفیق والی ریلوے یاد آ رہی ہے جو کم از کم موجودہ صورتحال سے تو زیادہ بہتر تھی یقین نہ آئے تو تھل ایکسپریس کے ان مسافروں سے پوچھیں جو بے چارے بوگیاں الٹنے کے بعد اس گرم تپتے ریگستان میں گھنٹوں جلتے بھنتے ہوئے ریلوے والوں کی شان میں باآواز بلند ہجو کہہ رہے تھے۔
پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 16 کروڑ تک پہنچ گئی
خدا کرے یہ اعداد و شمار غلط ہوں۔ مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ …؎
جس طرف آنکھیں اٹھائوں تیری تصویراں ہے
نہیں معلوم کہ خواباں ہے کہ تعبیراں ہیں
اپنے اردگرد دائیں بائیں جہاں بھی نظر ڈالیں پیدل چلنے والا ہو یا موٹر سائیکل سوار۔ گدھے ریڑھی والا ہو یا کار سوار۔ موچی ہو یا سبزی والا۔ بھکاری ہو یا چھان بورا جمع کرنے والا۔ طالب علم ہو یا استاد بچہ ہو یا بڑا۔ مرد ہو یا عورت سب کے ہاتھ میں یہی موذی موبائل بڑی آن بان اور شان کے ساتھ کان سے لگائے نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ گالوں کا بوسہ لے رہا ہو۔ اس موبائل نے باہمی رشتے ناطے اور رابطے تک ختم کر دئیے ہیں۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ مل بیٹھ کر دو چار باتیں کر لے حال احوال پوچھ لے۔ البتہ موبائل پر گھنٹوں بیٹھ کر ٹک ٹک کرنے کے لیے ٹائم ہی ٹائم ہے سب کے پاس۔ ہم ہی کیا امریکی بھی اس لت میں مبتلا ہیں۔ اسی لیے کیلیفورنیا میں ایک ہوٹل نے مہم چلا رکھی ہے کہ ہمارے ہوٹل میں آئیے اپنا فون لاکر میں بند رکھ کرمفت پیزا کھائیں اور آپس میں باتیں کریں۔ یوں پیزا کھانے کا اور باہمی بات چیت کا مزہ اٹھائیں اور کچھ دیر موبائل فون سے جان چھڑائیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے ہاں بھی اسی قسم کی مہمیں چلائی جائیں تاکہ تقریب کچھ تو بہر ملاقات کی کوئی صورت نکلے اور موبائل سے ہٹ کر بالمشافہ بات چیت کا مزہ آئے۔
٭٭٭٭
پی ٹی ایم کی رہنما گلالئی اسماعیل بھی گرفتار
سچ کہتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ گلالئی نے بہت کوشش کی جان بچے اور لاکھوں پائیں۔ مگر قانون کی عقابی نظروں نے انہیں تلاش کر ہی لیا۔ امید ہے اب اسے اپنی اس ہرزہ سرائی کا معقول جواز پیش کرنا ہو گا جو وہ ہر وقت اِدھر اُدھر بکری کی طرح منہ اٹھائے جگالی کی طرح کرتی پھرتی تھیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ جیسے سمگلر جو ڈرائیوری سے یہاں تک اسلحہ اور منشیات کی سمگلری کر کے پہنچے ہیں پہلے ہی زیر دام آ چکے ہیں۔ ان کے خلاف عدالت میں درخواست بھی دی جا چکی ہے کہ ملکی سرحدوں ، افواج اور قومی سلامتی کے خلاف بدزبانی ، پرچم کی توہین پر انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جائے۔ یہ درست بات ہے جو ملک و قوم کا خیرخواہ نہیں ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں مرد ہوں یا عورت سمگلر ہو یا ڈرائیور کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ اب منظور پشتین بھی کسی زیر زمین کھو میں چھپا بیٹھا غرا رہا ہو گا اسے بھی سبق سکھانے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ وہ بدبخت ہیں جو جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔ یہ گمراہ لوگ نوجوانوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں الٹے سیدھے خوب دکھاتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں اس طرح اپنے غیر ملکی آقائوں سے مال کماتے ہیں۔ یہ غیر ملکی بڑے ہوٹلوں میں قیام و طعام ویسے ہی تو نہیں ہوتا۔ اب انکا کچا چٹھا عوام کے ساتھے لا کر انہیں بے نقاب کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
٭٭٭٭