شارق کا اصل نام ریاض احمد ناصر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’ناصر‘‘ تخلص ہے، مگر نہیں۔ اس نے تخلص ’’شارق‘‘ رکھا اور پھر ’’شارق نظامی‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔ اس نام سے اُس کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے۔ پھر اس نے اپنا نام شارق مان لکھنا شروع کیا کہ ’’مان‘‘ اس کی گوت ہے۔ اس کو بھی مختصر کر کے صرف ’’شارق‘‘ رکھ لیا اور اس کے تازہ شاعری مجموعے ’’اٹھواں رنگ‘‘ پر ’’شارق‘‘ شائع ہوا ہے۔ ’’اٹھواں رنگ‘‘ جنوری 2018 ء میں شائع ہوا۔ 2018ء ہی میں اس کا اردو شعری مجموعہ ’’کیا جاں سے گزر جائیں‘‘ شائع ہوا جس پر شاعر کا نام ’’شارق ادیب‘‘ چھپا ہے۔ میں نے شارق سے دریافت کیا۔ بار بار تبدیلیٔ نام کی وجہ؟ اس کا جواب تھا۔ میں ’’شارق ادیب‘‘ کو Establish (حتمی طور سے منوانا) کرنا چاہتا ہوں۔ کیا وہ اس پر قائم رہتا ہے۔ یہ تو اس کے آئندہ شائع ہونے والے مجموعے سے پتا چلے گا۔ شارق کے شعری مجموعوں پر پبلشر کے طور پر ’’پتن پبلی کیشنز۔ کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ‘‘ چھپا ہوتا ہے۔ جبکہ اس کی اقامت گاہ شیخوپورہ میں ہے۔ اس سے بھی Confusion (الجھن، انتشار) پیدا ہوتا ہے۔ دراصل اس کا آبائی قصبہ ضلع لیہ ہے، جس کی وجہ سے وہ ضلع لیہ کا ایڈریس شائع کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسے شیخوپورہ کا ایڈریس بھی شائع کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ ضلع لیہ کو خدا حافظ کہے اسے برسوں بیت چکے ہیں۔ اب اس کی شناخت ’’شیخوپوریا‘‘ کے ریفرنس سے ہے۔
شارق میں شعری صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے ودیعت کر دی تھیں۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ 1992ء میںشائع ہوا، جب وہ میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا۔ ریاض احمد ناصر اس کے ماموں زاد بھائی کا نام ہے۔ وہ بچپن میں فوت ہو گیا تو ماموں نے اس کا نام ’’ریاض احمد ناصر‘‘ رکھ دیا۔ اس نے ماموں کے تجویز کردہ نام کو کبھی اختیار نہیں کیا۔ نہ کبھی ’’ناصر‘‘ تخلص کیا۔ مگر اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کا اصل نام ’’ریاض احمد ناصر‘‘ ہے۔ ’’مان‘‘ جٹوں کی گوت ہے۔ اس لیے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’مان‘‘ بھی لکھ لیتا ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی نسبت سے اس نے ’’شارق نظامی‘‘ لکھنا شروع کیا۔ مگر بعض لوگ اس نسبت کو کسی دوسری طرف لے گئے۔ اس لیے اس نے تازہ شعری مجموعے ’’اٹھواں رنگ‘‘ میں صرف ’’شارق‘‘ لکھا اور اردو شعری مجموعے میں ’’شارق ادیب‘‘ بار بار نام تبدیل کرنا احسن اقدام نہیں۔ اسے کسی ایک نام پر صاد کر لینا چاہیے۔ یہی اس کے حق میں بہتر رہے گا۔
نام کی طرح اس نے شاعری میں استاد بھی تبدیل کیے۔ ابتدا میں غافل کرنالی، اس کے بعد خالد احمد اور پھر سید تنویر بخاری کی شاگردی اختیار کی۔ قوس قزح کے سات رنگ ہیں مگر شارق نے آٹھواں تخلیق کیا، جس کی تفصیل تنویر بخاری دیباچے میں بیان کر چکے ہیں۔
سات کا ہندسہ بھی عجیب ہے۔ سات زمینیں، سات آسمان، ہفتے میں سات دن، قرآن میں سات منزلیں، دنیا کے سات براعظم، طواف کعبہ، صفا و مروہ کے سات چکر، حج کے موقع پر شیطان کو سات کنکریاں مارنا اور سورہ فاتحہ کی سات آیات۔ منیر نیازی نے رسالہ جاری کیا جس کا نام ’’سات رنگ‘‘ رکھا۔ یہ رسالہ دو تین سال جاری رہا۔
’’اٹھواں رنگ‘‘ میں شارق نے نظم میں کئی نئے تجربے کیے ہیں۔ اس نے کلاسیکی رمزوں سے فائدہ اٹھایا اور جدید دور کی نئی علامتیں تخلیق کیں۔ اس کی نظموں میں ایک خاص طرح کا مکالمہ بھی ہوتا ہے۔ اس نے اپنی ان نظموں میں ایک انوکھا اور نیا تجربہ کیا ہے۔ اس کی شاعری فرد کی آزادی اور اس سے بننے والے وسیب کی آواز ہے۔ اپنی نظموں میں اس نے زبان، بیان اور ہیئت کے کئی نئے تجربے کیے ہیں۔ ان تجربات کی بدولت قارئین کو لفظ اور معنی کے کئی نئے جہانوں سے متعارف کرایا۔ اس نے اپنی دھرتی، اپنے وسیب اور اپنی مٹی کی بات کی ہے۔ ’’اٹھواں رنگ‘‘ میں ہمیں چھوٹی نظمیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاََ چانن، نمبل، لام، کچیاں کندھاں دے وچ جند نمانی، گھول، چیتر چتر، دھکے شاہی، مولانا روم نال آڈھا اور دیگر نظمیں۔ کتاب میں شامل ایک مختصر نظم ’’شودر‘‘ بھی ہے۔ جو اس طرح ہے :۔ …
پاک ٹی ہاؤس
جیہڑا آوے جاوے
اوہو
وارث
غالب، میر، اقبال
فیض، ندیم، دمودر
باہرلے سارے شودر
’’شودر‘‘ کی اصطلاح اس نے مضافاتی شاعروں کے لیے استعمال کی ہے۔ شارق نے ’’اٹھواں رنگ‘‘ میں علامہ اقبال کی حکایت ’’الماس و زغال‘‘ کو پنجابی شعروں میں بیان کیا ہے۔ یہ حکایت علامہ اقبال کی کتاب ’’مثنوی اسرار خودی‘‘ میں شامل ہے۔ شارق فارسی میں شعرکہنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ثبوت اس کا اردو شعری مجموعہ ’’کیا جاں سے گزر جائیں‘‘ ہے۔ اس میں ماہیے ہیں۔ پہلا ماہیا فارسی اور باقی اردو میں ہے۔ اردو کے اس مجموعے میں ڈاکٹر سید تنویر بخاری اور خالد احمد کے دیباچے شامل ہیں۔ ’’کیا جاں سے گزر جائیں‘‘ میں غزل ہی کے موضوعات کو اپنایا گیا ہے۔ خالد احمد (اب مرحوم) نے لکھا تھا کہ ’’شارق کی پنجابی شاعری نے مجھے متاثر کیا مگر ان کے اردو ماہیوں کے مجموعے نے مجھے وہ سب کچھ کہہ دینے پر مجبور کر دیا جس کے بارے میں کچھ کہنا مجھے کبھی راس نہ آ پایا تھا‘‘
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38