وزیر اعظم نے قوم کے نام اپنے پیغام میںایک خوبصورت پیغام دیا ہے کہ ’’ ٹیکس ایمانداری سے ادا کریں ، اپنی پوشیدہ دولت ظاہر کرکے ایمنیسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھائیں ، جب تک ٹیکس کی ادائیگاں نہیں ہونگی ملک کی معشیت بہتری کی طرف نہیں جائیگی وغیرہ وغیرہ۔۔ بہت ہی اہم پیغام ہے یہ نکات ہمیشہ اور خاص طور پر ٹیکس کی ادائیگیاں ہر ملکی معیشت کا اہم ستون ہوتا ہے ۔ یہ صرف آج کی حکومت کیلئے ہی نہیں بلکہ ہر جانے والی حکومتوں اور آنے والی حکومتوںکیلئے ہم ترین ستون ہے اسلئے اگر کاش دھرنوں کے دوران بھی جب کئی ماہ کے دھرنوں کے دوران ملکی معیشت کا شدید جھٹکا لگا تھا تحریک انصاف کا یہ ہی بیانیہ ہوتا بجائے اسکے کہ’’ ٹیکس نہ دو، بجلی کے بل ادا نہ کرو قسم کے ملک دشمن نعرے نہ ہوتے تو آج تحریک انصاف پر کوئی انگلی نہ اٹھاتا کہ پہلے کیوں اسطرح کے بیانات دئے جاتے تھے جبکہ تحریک انصاف کا دعوی ہے اور کچھ حد تک صحیح بھی ہے کہ تحریک انصاف نے کامیابی ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کی حمائت سے حاصل کی چونکہ پہلے تعلیم یافتہ یا برگر طبقہ کبھی ووٹ دینے باہر نہیں نکلتا تھا یہ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کی کامیابی ہے اس طبقے کو باہر نکال کر ووٹرز کی لائن میں کھڑا کردیا۔عوام نے اپنا حق ادا کردیا مگر کیا کیجئے کہ حکومت بنانے کیلئے ورثہ میں ایک بڑی تعداد انہیں لوگوں کی ملی جو اس ملک کی معیشت کو دونوں ہاتھوں پیروں سے لوٹتے رہے ہیں تحریک انصاف میں کپتان کی اپنی ٹیم نا تجربہ کارہے جس وجہ سے حکومت پر نوکر شاہی جو سابقہ رنگوںمیں ڈھلی تھی نیز مورثی سیاست دان چھائے رہے ۔ وزیر اعظم نے جن جگہوںپر اپنے دوستوں اور جماعت کے ہمدردوں کو بٹھایا اس پر تنقید ہوئی جو میرے نزدیک اس لئے غلط ہے کہ اگر کوئی تجربہ کار ہے ، متعلقہ شعبہ میں کام کرکے قوم کی خدمت کرسکتا ہے تو اسے مکمل حق حاصل ہے اور حکومتی جماعت کو اس پر بھروسہ ہے تواسے پورا حق حاصل ہے وہ حکومتی ٹیم کا حصہ بنے ، یہ بات تحریک انصاف کی قابل ستائش ہے کہ گزشتہ دنوں حکومت ٹیم کے جن وزراء کو برطرف کیا گیا ان پر کرپشن کا الزام تھا انہیں برطر ف کیا گیا ، مگر یہ بات قابل ستائش نہیں کہ انہیںاگر ثبوت تھاتو جیل یا نیب کے حوالے کیوں نہ کیا اور نیب تو بغیر ثبوتوںکے جیل بھیج دیتی ہے جو کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا ۔جب ٹیم نا تجربہ کار ہو اور ملک گوناگوں مسائل میں پھنساہو تو نادانستگی میں اس ٹیم کے مقابلے پر کئی محاذ ایک ساتھ کھل جاتے ہیں کچھ خوامخواہ اور کچھ ضروری مگر کئی محاذوں کی وجہ سے ضروری کام رہ جاتے ہیں یا ان سے توجہ ہٹ جاتی ہے ، سابقہ حکومتوں کیخلاف کرپشن ، کرپشن کی چپہ چپہ ہر حکومت نے اتنی صدا لگائی، FBR نے سرمایہ کاروں کو اتنا تنگ کیا، ڈالر کی قیمت میں ہر منٹ تبدیل ہونے والی صورتحال نے سرمایہ کارون کو خوفزدہ کردیا اور سرمایہ رک گیا ۔ NRO ڈھیل ، ڈیل کو اپنی لغت سے خارج کرنیوالی جماعت تحریک انصاف میں سب کچھ وہی ہورہا ہے NRO بھی ہے ڈھیل بھی ہے ، ڈیل بھی ہے شائد یہ چیزیں اگر وزیر اعظم کے بس میٰں ہوتیں تو ایسا نہ ہوتا ، مگر کیا کیجئے ڈھیل ، ڈیل نہ دینے کا نعرہ پوری حکومت لگا رہی ہے مگر بے بس نظر آرہی ہے ۔ جبکہ موجودہ حکومت کی بقاء اسی میں ہے کہ جو اندر ہیں اندر رہیں ، جو باہر ہیں باہر رہیں ، ٹیم مظبوط ہو تو کم سے کم محاذ کھولنے چاہیں۔ عدلیہ کو بھی زیر کرنے کی خواہش ، میڈیا کو کرہی لیا ۔ عدلیہ کے محاذ جسٹس فائز عیسی کیخلاف کاروائی ، جب ملک کی عدالتوں کی بار کونسل انکی حمائت میں آکھڑی ہوئیں تو وہی دقیانوسی طریقہ کار ’’ وکلاء ایکشن کمیٹی‘‘ کے نام پر ہر حکومت میں ہر حکومت کا ساتھ دینے والے لوگوں کو اکھٹا کرکے انکے یکطرفہ بیانات کو اپنے قابو کردہ میڈیا پر تشہیر کرنا ، جبکہ میڈیا کو پیمراء کی ممانعت کہ مذکورہ جج کے ریفرنس کے بارے میں کوئی تشہیر نہ ہوا۔ اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو اس موضوع پر محترم جج کے پیچھے چھوڑ دیا۔ جبکہ مذکورہ جج صاحب کو سرکاری طور پر کوئی چارج شیٹ نہیں دی گئی جسکی سفارش انہوں نے صدر محترم سے کی ہے ، صدر محترم سے شکائت کرنا اس موضوع پر ایساہی ہے جیسے کہ وزیر اعظم کے شکائت سیل میں بیرون ملک یا اندرون ملک پاکستانی اپنے ساتھ ہونیوالی کسی زیادتی کی شکائت کرتے ہیں تو وہ شکائت اسی شخص یا ادارے کو بھیج دی جاتی ہے جس سے شکائت ہے ، اب اس دنیا میں کون ایسا ہے جو یہ کہے گا کہ ’’جی میری غلطی ہے ‘‘ یہ ہم نے دیکھا ہے کہ جدہ کے اسکولوں کے مسائل پر وزیر اعظم کے شکائت سیل کوشکائت بھیجی گئی تو قونصلیٹ میں شکائت انہی افراد کو بھیج دی گئی جن سے شکائت تھی اور وہاں سے سب اچھا کی رپورٹ چلی گئی ، اور فائل بند ، شکائت ختم ۔ محاذوں کے حوالے سے کئی موضوعات ہیں جنہیں نہ چھیڑنا بہتر ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس خود کہہ چکے ہیں کو عوامی نمائیندگان اسمبلیوں میں بیٹھ کر کوئی قانون سازی نہیں کررہے نہ ہی عدالتی نظام کے حوالے سے کوئی قانون سازی ۔ مشرف دور میں وکلاء کی کامیاب تحریک میں عدلیہ کو جو آزادی حاصل ہوئی تو لگتا ہے اسپر شب خون ماراجائیگا ۔ بلوچستا ن اور دیگر معاملات پر وزیر اعظم کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ عوام سے معاملات بات چیت سے حل کرنا چاہیے۔ اس وقت پاکستان کو گورننس ، معاشی معاملات کی بہتری ، سیکورٹی ، سیکورٹی کے معاملات کا سامنا ہے جو عوام کیلئے یقینی طور پر اہم ہیں ، ورنہ ملک کی مہنگائی ، بیروزگاری تو عوام کو سڑکوںپر لے آئیگی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024