پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جامع آپریشن کیا
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ امریکہ کی موجودگی کے باوجود داعش پھیلتی ہی جا رہی ہے ۔امریکی اڈوں سے غیر فوجی رنگ کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے داعش کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ داعش کا افغانستان میں وجود امریکی انٹیلیجنس کی موجودگی میں ہوا جب کہ پہلے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ تھے اب سب سے زیادہ داعش ہے۔
سابق وفاقی کابینہ اور سابق وزیر خارجہ خرم دستگیر امریکی افغان پالیسی بارے میں جو کچھ بتا گئے ہیں اس پر پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہم پہلے ہی بھاری حانی و مالی قربانیاں دے کر بڑی مشکل سے دہشت گردی سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ داعش کی صورت میں ایک نئے عذاب کی تنبیہ دے دی گئی ہے۔ داعش کی تنظیم اور ارکان، ہئیت اور مزاج کے اعتبار سے القاعدہ اور طالبان سے مختلف ہیں۔ داعش ایک اکاس بیل کی طرح ہے جو پودے یا درخت کو چمٹ جائے تو پھر اسے الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
امریکی موجودگی کے باوجود داعش نے عراق اور شام سے پسپا ہو کر افغانستان میں قدم جما لئے، اب وہاں سے اس کاوجود مٹاناکم از کم اکیلے امریکہ اور افغان حکومت کے بس کا روگ نہیں۔ یہ پاکستان ہی ہے جو اس بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کا پاکستان کے بارے میں رویہ صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے مزید خرابی کا باعث ہی ہو سکتا ہے۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی تشویش بجا ہے کیونکہ موجودہ حالات خطے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ طویل بارڈر رکھنے کی وجہ سے افغانستان کے حالات لامحالہ پاکستان پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ شرپسند اور دہشت گرد عناصر کی پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں پاکستان کو شدید نقصان پہنچا چکی ہیں۔ عالمی فورم پر اس بات کے ثبوت بھی پیش کیے جاچکے ہیں کہ افغانستان پار سے شدت پسند پاکستان کے اندرونی شہروں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں یہ خبریں بھی منظر عام پر آرہی ہیں کہ شدت پسند تنظیم داعش اندرون ملک اپنی حیثیت مضبوط کررہی ، جو تشویشناک امر ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ افغانستان میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی موجودگی خطے کے لیے خطرہ ہے۔ بلاشبہ اگر داعش جیسی شدت پسند تنظیم افغانستان میں پنپ رہی ہے تو افغان بارڈر مزید غیر مستحکم ہوجائے گا اور نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے یہ شدید خطرے کی علامت ہے۔ پاکستان پہلے ہی افغانستان میں قیام امن اور طالبان و افغان حکومت کے مابین مذاکرات کے لیے اپنا صائب کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان خطے کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردوں کے منظم گروپوں کے خاتمے کے لیے جامع آپریشن کیا۔ لیکن پاکستان کی تمام تر مخلصانہ کوششوں کے باوجود افغانستان اور سپر پاور امریکا کی جانب سے شکوک کا اظہار کیا جانا افسوسناک ہے۔ افغان معاملات اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کردار پر امریکا نے ہمیشہ ڈو مور کا تقاضا کیا ہے اور پاکستان ثابت قدم رہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں پاک امریکا تعلقات میں جو سردمہری در آئی تھی اسے دور کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔
پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں را اور دیگر پاکستان مخالف تنظیموں نے تربیتی کیمپ قائم کررکھے ہیں۔ وہاں نہ صرف کارکنوں کو عسکری تربیت دی جاتی ہے بلکہ خودکش حملہ آور بھی وہیں تیار ہوتے ہیں۔اسی سلسلے میں بھارتی عہدیداروں نے افغانستان کے کئی خفیہ دورے کیے۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں موجود سبھی پاکستان دشمن تنظیموں کے لیڈروں سے ملاقات کی جاسکے۔وہ انھیں متحد کرنا چاہتا تھا۔ انہی دوروں سے اس پر افشا ہوا کہ عراق و شام کی جنگجو تنظیم، داعش بھی افغانستان میں پر پھیلا رہی ہے۔بھارت کا پلان یہ ہے کہ طالبان دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں اور داعش کو ملا کر افغانستان میں ایک طاقتور پاکستان دشمن اتحاد وجود میں لایا جائے۔ تاہم افغان طالبان اس پلان کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ افغان طالبان اپنے علاقوں میں داعش کی موجودگی نہیں چاہتے، انہیں ڈر ہے کہ یوں افغانستان میں ان کا اثرورسوخ کم ہوجائے گا۔بھارت افغانستان میں پاکستان دشمن تنظیموں کے علاوہ داعش کی بھی حمایت کررہا ہے کیونکہ داعش افغان طالبان سے نبردآزما ہے۔ وجہ یہ کہ بھارت کو علم ہے، اگر افغان طالبان برسراقتدار آگئے، تو وہ بھارت کو منہ بھی نہیں لگائیں گے۔ اسی لیے وہ افغان حکومت کو کھلے عام اسلحہ اور ڈالر دیتا ہے تاکہ افغان طالبان کا قلع قمع ہوسکے۔ جبکہ پوشیدہ طور پر پاکستان دشمن تنظیموں اور داعش کی بھی ہر ممکن مدد کی جارہی ہے۔دنیا بھر میں خلافت قائم کرنے کی دعویدار‘ داعش کے کارکن جعلی ویزوں پر افغانستان یا ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ پھر مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوان تلاش کرتے اور ان کی برین واشنگ کرکے انہیں داعش میں شامل کرلیتے ہیں۔ یہ نوجوان پھر اندرون و بیرون پاکستان دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔پاکستان کے خلاف داعش کو بھارتی مدد کا ثبوت یہ ہے کہ یورپی یونین مینڈیٹ سٹڈی کنفلیکٹ آریامینٹ ریسرچ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ بھارت داعش کو بم بنانے کے اجزاء فراہم کرنیوالا بیسواں ملک ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت سے لبنان اور ترکی میں داعش کو حکومتی جاری کردہ لائسنسوں کے تحت بم اجزاء قانونی طور پر برآمد کئے گئے۔ 20 ممالک کی کمپنیاں داعش کو بموں کے اجزاء فراہم کرنے میں ملوث پائی گئیں۔ 51 ممالک کی کمپنیوں جن میں ترکی’ برازیل اور اقوام متحدہ شامل ہیں نے داعش کو700 بموں کے اجزاء فروخت کئے جس سے تنظیم نے دھماکہ خیز مواد بنایا۔ بیس ماہ پر مبنی اس سروے رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارت کی سات کمپنیاں اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں جبکہ بھارت کا اس حوالے سے 20 واں نمبر ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان بڑے ہنگامہ خیز انتخابات متوقع ہیں۔ کوشش کی جائے کہ واشنگٹن سے سیاسی رابطے منقطع نہ ہوں، البتہ داعش کے خطرے کے باعث سپلائی لائن روکنے کے حوالے سے غورو خوض بجا ہے۔ تاہم صورتحال بگاڑ کی طرف بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ نگران حکومت ایک سنگین آزمائش سے دوچار ہونے والی ہے۔ توقع ہے کہ انتخابات لڑنے والے سیاسی حریف سرحدوں اور خصوصاً مغربی سرحد کی صورتحال کو پیش نظر رکھیں گے اور انتخابی مہمیں ٹھنڈے دل و دماغ اور صبرو تحمل سے برادرانہ ماحول میں چلائی جائیں گی۔