منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
غلامی کے اندھیروں میں رہتے رہتے قوموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اندھیروں کو اپنا مقدر سمجھ لیتی ہیں -انہیں اجالوں سے خوف محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تومقدر کی ستم ظریفی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اجالوں میں آکر بھی ذہن کے اندھیرے اوجھل نہیں ہو پاتے۔ ایک تبدیلی انہیں ڈراتی ہے- ہم نے ان حالات میں برس ہا برس گذارے ہیں لیکن اب جب اپنے لوگوں میں پھر کچھ ارتعاش دیکھتا ہوں تو اس کروٹ کی سمجھ آتی ہے جو ہمارا معاشرہ لے رہا ہے- تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کرپشن کے ہاتھوں تنگ عام عوام اب جواب چاہتی ہے تو دل کو خوشی ہوتی ہے- میں نہیں جانتا کہ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے والے وہی چہرے کچھ تبدیلی لا سکتے ہیں ان کا پیشہ ہے حکمرانی اور ان کا مطمعئ نظر ہے اپنے ذاتی مفاد لیکن اگر تبدیلی آئے گی تو وہ عوام ہی لے کر آئے گی جس میں غلطیاں بھی ہوں گی لیکن چند برس کسی قوم کی زندگی میں کچھ نہیں ہوا کرتے اگر اسے احساسِ زیاں ہو اور اس میں سدھرنے کی تمنا و حسرت ہو- ابھی بھی ایک اکثریت ہے جو تبدیلی سے گھبراتی ہے وہ جانتی ہے کہ پاکستان کے حالات وقت کے ساتھ خراب ہوئے ہیں لیکن ماضی کے ساتھ چمٹا رہنے کو ہی قسمت کا لکھا تصور کرتی ہے- تاریخ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کیلئے ہوتی ہے جبکہ ہم اسے ماضی کے نفاذ کے لیے ایک نصاب کے طور پراستعمال کرتے ہیں- شخصیت پرستی نے ہمیں کیا دیا ہے – ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہمیشہ زندگی عطا کرنے والا – ہمیشہ زندہ رہنے والا اور نہ مرنے والا ہے اور یہی ہمارے اجداد کا پیغام بھی ہے کہ جنہوں نے نظریہ اور ضابطہ ئ حیات کو اول گردانا تھا اور رب کی حاکمیت تسلیم کی تھی تو پھر کیوں ہم شخصیتوں سے چمٹے جاتے ہیں اور ان کے ظلم و ستم سہتے ہیں- حالیہ بارشوں میں اسلام آباد کے ائرپورٹ پہ بنا ایک ڈیم کہ جہاں جہاز بھی اڑا لو اور پانی میں نہا بھی لو کیا اس بات کا عملی ثبوت نہیں ہے کہ ہم اس کے بنانے والوں کا گریبان پکڑنے کی بجائے ان کی صفائیاں دے رہے ہیں- یہ شخصیت پرستی ہمیں کہاں لے جائے گی- دس سال پنجاب پہ حکمرانی کرنے والا اگر دو دن کے بعد یہ کہے کہ اب ہر مسئلہ کی ذمہ دار نگران حکومت ہے تو سوائے ماتم کے کوئی اور کیا کرے لیکن ہم اسے بھی تحفظ دینے کو چاک و چوبند ہیں- جب پاکستان سے پہلے ہم ان کے وفادار ہوں گے تو پاکستان کی ترقی کے رستے بند ہو جائیں اور ذاتی بنک اکاؤنٹس بھرتے جائیں گے- میں کسی پارٹی کا سپوکس مین نہیں ہوں جو پاکستان کے مفاد کے مخالف اپنی خواہشات کے زیر ِاثر ہے– جمہوریت نے دو ادوار مکمل کئے ہیں دماغ کھلے رکھو – غلط کو غلط کہو اور درست طرزِ عمل پہ داد دو – جو اپنی ذات کا پجاری ہو اسے نکا ل باہر کرو- ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی مثال سامنے رکھو کہ جو بانوے برس کی عمر میں کرپشن کے خلاف سینہ ٹھونک کے کھڑا ہے- ملک کے میگا پراجیکٹس یا مال بنانے کے منصوبے بند ہو چکے ہیں اور لوٹ مار کرنے والے جواب دہ ہیں- ماضی سے مستقبل کا سفر کرنے والے جنوبی ایشیا میں لیڈ کر رہے ہیں اور ہم ایک ماضی سے بندھے صومالیہ سے بھی نیچے ہیں- کس کی غلطی ہے- کیا ہم اپنی پچھلی دو دفعہ کی مہم جوئی اور انتخاب پہ انگلی اٹھائیں گے یا پھر اداروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر خود سرخرو ہو جائیں گے- ملک بانوے ارب ڈالرز کا مقروض ہے - آنے والی حکومت کے لئے حالات ایسے ہیں کہ کشکول پکڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور ہم خوش ہیں کہ چند شہروں میں بسوں اور لوکل ٹرینوں پہ سفر کے ساتھ پینے کو پیلا پانی خوب میسر ہے- ہم مردہ قوم نہیں ہیں ہم تبدیلی کے عمل سے گذر رہے ہیں – ہم سوال پوچھ رہے ہیں- جب سوال پوچھنے والے موجود ہوں تو جواب دینے والا اپنے عمل کی ضرور دلیل ڈھونڈتا ہے نہ کہ وہ سفید و سیاہ جو بھی کرے اور جوابدہ بھی نہ ہو- ہمارے بہت سے لوگ سوال کرنے کو پسند نہیں کرتے وہ اسی کھونٹے سے بندھا رہنے کی خواہش میں مستقبل کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ آنے والا مختلف نہ ہوگا – اب شخصیت سے پہلے پاکستان ہوگا- اگر اب چپ رہے گے تو مر جائیں گے- میں نہیں کہتا کہ کون آئے جو بھی آئے اسے اس عزم کے ساتھ لایا جائے کہ پاکستان کی بات ہوگی- میں جانتا ہوں کہ یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے اور اس صورت میں جب نقاہت سے دوچار بدن ہلنے سے بھی قاصر ہیں لیکن ہمیں اٹھ کھڑا ہونا ہے- اپنے لئے اپنے کل کے لئے- اب سب مستقبل کے حاکم اور آئندہ کے امید وار آپ کے پاس حاضر ہوں گے کسی بھائی کو طعنہ طشنہ دینے کی بجائے اس سے اس کا منشور پوچھو اور بریانی و قیمے کے نان کی بجائے اسے اپنے گھر سے کچھ کھلاؤ لیکن ایک وعدے سے باندھ لو کہ ہمیں میچور لیڈرشپ چاہیئے – جوش نہیں ہوش ہی ہمارا لائحہ عمل ہو گا تو بات بنے گی- اداروں پہ تنقید کی بجائے انہیں صفائی کا عمل مکمل کرنے دو- ملک بھی چلے اور صفائی بھی ہو لیکن ذاتی عناد کی سولی پہ کسی کو نہ چڑھایا جائے- غلطیاں ہم سب نے کی ہیں لیکن غلطیوں کوسدھارے بغیر اب بند آنکھوں سے کسی کے پلو کو پکڑ کے ہمیں نہیں چلنا ہے- صفائی کے عمل کے بعد جو سرخرو ٹھہرے اسے خوش آمدید کہو اور جو صفائی میں ناکام رہے اس سے ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لیا جائے- ایک دوسرے پہ جملے کسنے اور ماحول کو پراگندہ کرنے کی بجائے اب متحد ہونے کی ضرورت ہے- اوراس اتفاق کا ایک نقطہ ایک مرکز طے کرنے کا موقع ہے- وہ نقطہ ومرکز اگر پاکستان ہو گا تو چنداں دشوار نہیں کہ کل ہمارا نہ ہو- ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں گے تو یقینا" کامیاب ہوں گے- مانا یہ کچھ نازک لمحے ہیں لیکن ہمیں جدت پسندی کے اصولوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کیونکہ بقول شاعر مشرق-
آئین ِ نو سے ڈرنا ، طرز ِکہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں