لغزشِ پا میں ہے پابندیِ آداب ابھی!
قران پاک کے نزول کا مہینہ ہے۔ دن کو روزہ اور رات کو شب بیداری ۔ جسم اور روح کی پاکیزگی کا کیا بندوبست ہے۔ کسی چاک و چست فوج کی طرح سالانہ مشقوں کا زمانہ ہے۔ آخری عشرہ اس کی انتہاءہے۔ ایک شبِ قدر ہزار مہینوں کی عبادت پر بھاری۔ چشمِ تصور سے دیکھئے! رات سے فجر تک فرشتوں کی قطاریںہی قطاریں! کس نورانی مخلوق کی آمد و رفت ہے۔ زمین پر زمین کی کنکریوں سے زیادہ فرشتےموجود ہوتے ہیں۔اللہ کے نیک بندے اس با برکت ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔صدقات اور خیرات کی تقسیم شب و روز جاری رہتی ہے۔اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر لوگ دوسروں کیلئے دسترخوان بچھا دیتے ہیں۔اعمال صالح میں اللہ کی مخلوق کی خدمت اور خیال ہی سب سے افضل ہے۔ مسجد قدرت کا کمال عطیہ ہے۔ غریبوں کیلئے گوشہ سکون۔ بے سہاروں کا سہارا۔مگر اشرافیہ کس حال میں ہے ؟ ان کےاعمال پر تو قوم کی قسمت کا فیصلہ زمین پر بھی اور آسمان پر بھی ہونا ہے!افواہوں کا بازار گرم ہے۔گفتگو لغو اور کذب ہے، غیبت اور بہتان کا ایک طوفان ہے۔مدینے میں جب منافقین نے افواہیں پھیلانا شروع کیا تو قران کے ذریعے انہیں دھمکی دی گئی کہ باز نہ آئے تو شہر سے نکال دئے جاو¿ گے۔لعنت اور پھٹکار پڑے گی۔قانون یہ ہے کہ جب کسی بستی کی شامت آنی ہوتی ہے تو اس کے امراءمنافق اور فاسق ہو جاتے ہیں۔معاشرے کی تباہی کی نشانی دولت مند ، صاحبِ اقتدار اور صاحبِ اختیار لوگوں کی حرص اور بد اخلاقی میں مبتلاءہونا ہے۔یہ فتنہ ساری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔قوم میں ناشکری آجائے تو ہر چیز میں بے برکتی ہو جاتی ہے۔ پھل فروٹ کڑوے ہو جاتے ہیں۔پانی زمین کے نیچے اتر جاتے ہیں۔ بارشیں بند ہو جاتی ہیں۔ آسمان آگ برستا ہے۔فتنے تسبیح کے دانوں کی طرح نازل ہونا شروع ہو جاتے ہیںجو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔ آج سارا پاکستان اخلاقی گندگی میں مبتلا ہو چکا ہے۔کتابیں علم و ہنر اور ریسرچ پر نہیں لکھی جارہیں بلکہ اخلاقی پستیوں کی ذاتی کہانیاں فخر سے لکھی اور سنائی جا رہی ہیں۔ننگِ وطن اور ننگِ دین مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ریحام خان اور جمایما ایک ہی انسان سے متعلقہ اور مطلقہ دو عورتیں ہیں۔ دونوں کے کردار میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ایک مسلمان اور پاکستانی ہو کر ملک میں فحاشی کی اشاعت پر کمر بستہ ہے ۔ دوسری غیر ملکی ، کھرب پتی ہو کر پاکستان میں کئے گئے برے سلوک پر پردے ڈال رہی ہے۔ یہاں ہر آدمی عیب جوئی اور عیب گوئی کو اپنا پیشہ سمجھتا ہے۔ٹی وی ٹاک شوز ہمارے اجتماعی کردار کی ایک بد صورت تصویر ہے۔کئی گھنٹے سنتے رہیں تو کام کی ایک چیز حاصل نہیں ہوتی۔یاد رہے کہ سورہ نور صاف الفاظ میں اعلان کرتی ہے کہ ایمان والوںمیں فحاشی پھیلانے کی خواہش رکھنے والے دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ ان کا یہ ” حق“ کبھی تو ملے گا۔ انتظار کیجئے!!انسانوں کی تربیت پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی شان و شوکت بنائی جارہی ہے۔غیر ملکی سودی قرضے لے لے کر ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ یہ صرف امراءکی ترقی ہے۔ حکمرانوں کی ترقی ہے۔عوام کی یہ حالت ہے کہ ملک کی 80% آبادی کی آمدن 2ڈالر یومیہ سے زیادہ نہیں۔ عالمی بنک کی یہ رپورٹ نوائے وقت میں بھی چھپ چکی ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ یہ غریب لوگ اپنی کمائی کا اسی فیصد کھانے پر لگا دیتے ہیں۔بتائیں وہ تعلیم، رہائش اور علاج کیلئے رقم کہاں سے لائیں۔کسی بھی قوم میں پارلیمنٹ ایک رول ماڈل ہونا چائیے۔ یہاں سپیکر قومی اسمبلی ممبران کے الیکشن فارم کے ذریعے یہ کوشش کرتے ہیں کہ ملک کی اسمبلیوں میں ملک دشمن ، چور ڈاکو آنے کی گنجائش موجود رہے۔ملک کا مستقبل کیا ہو گا؟آج بھی دیانت دار قیادت ملک کو مل جائے تو پاکستان دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتا ہے۔قیادت کی تشکیل کا ایک ذریعہ ووٹ ہے۔ ووٹ دینے والوں کی عزت کسی بڑے جلسے میں اعلان سے نہیں حاصل ہو سکتی۔ووٹ کی عزت اس دن ہوگی جب لوگوں کو سستا انصاف ملے گا۔ پولیس، عدالت وکیل اور ان کے منشی لوگوں کو عزت دیں گے۔ تعلیم تربیت اور ہنر لازمی ہوگا۔ دفتروں میں اخلاقی تربیت کے بغیر لوگوں کو بھرتی نہیں کیا جائے گا۔ کوئی کام کسی لیول پر خفیہ نہیں ہوگا۔ شفافیت سے ووٹر کی عزت ہوگی۔ قرضے معاف نہیں کئے جائیں گے اور سرکار کا ایک پیسہ بھی جس نے دینا ہو وہ وراثت سے بھی ہر قیمت پر وسول کیا جائے گا۔صوابدیدی اختیارات ختم کر کے میرٹ ہی کو ملکی پالیسی کی بنیاد قرار دیا جائے۔تعلیمی مواقع شہروں اور دیہاتوں میں یکساں کئے جائیں ۔ نصاب یکساں اور پرائمری تک مادری یا قومی زبان میں تعلیم دی جائے۔ بچے کی سکول جانے کی عمر پانچ سال سے کم نہ ہواور نرسریوں کے نام پر کھلے پیسے بٹورنے والے اداروں کو بند کیا جائے تو ووٹر کو بڑی عزت ملے گی۔ علاج میں پرہیز، طب نبوی، ہومیوپیتھی اور روائتی جڑی بوٹیوں کو ریسرچ سے منسلک کر کے عام اور سستا کیا جائے۔ ڈاکٹروں، وکیلوں، افسر شاہی اور دوسرے تما م پیشوں کیلئے اخلاقی تربیت لازمی قرار دی جائے اس سے ووٹرکو بڑی عزت ملے گی۔ کسی شخص کی استطاعت سے زیادہ بل نہ ڈاکٹر چارج کرے اور نہ کوئی وکیل یا سکول۔ یہ حکومت وقت کی ذمہداری کہ ہر شخص کی استعداد بڑھائے یا خود اس کا خرچہ ادا کرے۔ مغربی جمہوریت کی اس ش کو کیوں بھلا دیا جاتاہے۔ 2015میں اقوامِ متحدہ نے ساری دنیا کو پائیدار ترقی کیلئے سنگِ میل دئیے تھے۔ پاکستان نے بھی ان پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ ترقی کے دعوے کرنے والے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے۔ملاحظہ کیجئے! غربت ختم کیجائے گی،بھوکا کوئی نہیں رہے گا، جسمانی صحت اور فلاح کا خیال رکھا جائے گا۔بہترین تعلیم سب کو ملے گی۔عورتوں کو ان کے سارے حقوق دئے جائیں گے۔پانی اور باتھ روم کی سہولت سب کو ملے گی۔سستی توانائی عام ہوگی۔با عزت روز گار کے مواقع سب کیلئے ہونگے۔صنعتی ترقی پر سہولیات دی جائیں گی۔امیر غریب کا فرق کم کیا جائے گا۔پائیدار سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہاں لوگ ایک دوسرے کا خیال کریں گے۔انصاف عام ہوگا۔ ماحول صاف ستھرا ہوگا۔پیداوار اور خرچ میں توازن ہوگا۔ دریاو¿ں اور سمندری حیات کی بھی حفاظت کیجائےگی۔ یہ سب ایک خواب لگتا ہے۔یہاں اگر صرف عدالت اور تعلیمی نظام کو درست کرنے کا بیڑا کوئی پارٹی یا کوئی حکومت اٹھا لے تو ملک کا رخ پستی سے ترقی کی طرف بدل جائے گا۔ کتابوں کی حد تک تو ہماری جماعتیں سب وعدے کرتی ہیں۔ عملی طور پر اپنے خاندان کو ہی پاکستان کا واحد وارث قرار دے کر دولت سمیٹے رہتے ہیں۔ مگر ہر کوئی اپنے اعمال کا جواب دہ ضرور ہوگا۔ تاریخ سے سبق سیکھنا ہو تو بغداد سے ڈھاکہ تک عبرت کے نشان موجود ہیں۔اللہ حافظ۔