سارے سیاسی کارکن مطلوب نہیں ہوتے
قارئین! تحریک انصاف کے کپتان جناب عمران خاں صاحب نے جب اپنے سفر کا آغاز 1997ءکے الیکشن سے کیا تو سیاست میں نوزائیدہ اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے تحریک انصاف کی پوری ٹیم بشمول کپتان کوئی نمایاں کارکردگی دکھائے بغیر پویلین لوٹ گئی۔ 2002ءکے الیکشن سے پہلے جنرل مشرف صاحب کو فل سپورٹ کرنا مگر بعد میں جنرل مشرف سے معاملات طے نہ پانے کی وجہ سے عمران خان صاحب کو محض ایک سیٹ پر قناعت کرنا پڑی۔ پھر 2008ءکے الیکشن کو مِس کیلکولیٹ کرنے اور بروقت حکمت عملی نہ اپنانے کی وجہ سے عمران خان سازش کا شکار ہوئے اور یہ ٹرین مِس کر دی۔ سیاسی پنڈت یہ خوب سمجھتے ہیں کہ سیاست میں بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے سیاسی خاندانوں کو نسلوں تک نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1985ءکے ضیاءالحقی غیر جماعتی الیکشن میں پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کرکے جو ٹرین مِس کی تھی اس کی وجہ سے پیپلزپارٹی آج تک دوبارہ قدم پنجاب میں نہ جما سکی اور آج پیپلزپارٹی کی پنجاب میں حالت یوں ہے کہ اسے پنجاب کی ایک سو اکتالیس سیٹوں کے لیے دو درجن مناسب امیدواران بھی دستیاب نہیں۔ شاید اسی لیے کسی شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے:
آج اتنی بھی میسر نہیں مہ خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
قارئین! پھراکتوبر2011 ءلاہور میں ہونے والے تحریک انصاف کے گرینڈ جلسہ میں عمران خان کو جو پذیرائی ملی اس نے سیاست کی دنیا میں ان کی دھاک بٹھا دی حالانکہ پٹواری لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کسی پاشا کا چمتکار تھا۔ 2013ءکے الیکشنز عمران خان کے لیے نائٹ میئر سے کم نہ تھے۔ سیاسی ناتجربہ کاری، ہٹ دھرمی اور مِس مینجمنٹ نے تحریکِ انصاف کو ننانوے کے نمبر پر سانپ کی طرح ڈس لیا اور موصوف پھر زیرو پر آ گرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2013ءکے بعد عمران خان خود اپنے اندر اور اپنے اردگرد تبدیلی لے کر آئے اور میں یہ بات کہنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ اگر 2014ءمیں عمران خان کو ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک اور منہاج القرآن کی غیرمتوقع اور حادثاتی سپورٹ حاصل نہ ہو پاتی تو آج دور دو رتک عمران خان کا نام و نشان نہ ہوتا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان چودہ شہداءاور نوے مضروبین کا احسان عمران خان کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے، جنہوں نے اپنا خون دے کر عمران خان کی تحریک کو جِلا بخشی۔
قارئین! پھر 2018ءکے آنے تک عمران خان اپنی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ میاں نوازشریف ،میاں شہبازشریف اور ان کی فیملی جب سے پانامہ اور اقامہ سکینڈل میں زیر عتاب آئے ہیں اس دن سے عمران خان کی سیاسی دکانداری بلندیوں اور اونچائی کو چھو رہی ہے اور اسی دوران تحریک انصاف کی لانڈرنگ مشین سے دُھل کر پاک ہونے والے کرپٹ سیاستدانوں نے تحریک انصاف کو ”اوورکراﺅڈڈ“ بنا کر رکھ دیا ہے اور شاید اسی سیاسی خمار کی وجہ ہے کہ آج 2018ءمیں جب تحریک انصاف نے ستر فیصد امیدواروں کی لسٹ جاری کی تو ان میں سینکڑوں نظریاتی کارکنان کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا۔ وہ لوگ جو پچھلے اکیس سال سے تحریک انصاف کی دھکا سٹارٹ گاڑی میں بے غرض بیٹھے ہوئے تھے یا یوں کہیے کہ ان کی حالت اس بیسٹمین کی طرح ہے جو فیلڈنگ میں جان مارتے ہیں مگر ان کی بیٹنگ کی باری کبھی نہیں آتی اور مجھے قوی یقین ہے کہ شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
محترم عمران خان صاحب کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سبق آموز صفحات پڑھنے چاہئیں کیونکہ انسان اپنے ماضی اور تاریخ سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ میں ایک سیاسی طالب علم ہوں اپنی بھرپور سیاسی اور صحافتی زندگی میں دنیا بھر کی مقتدر سیاسی پارٹیوں کو بنتے اور ٹوٹتے دیکھا ہے۔ سب سیاسی پارٹیوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہر گلی، محلے، گاﺅں، قصبوں اور شہروں کے قبرستانوں میں آپ کو بہت سی قبریں بغیر کتبے کے نظر آئیں گی۔ یہ بے نام قبریں ان وفادار سیاسی کارکنان کی ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیادیں یقین اور وفا پر استوار کیں۔ ابھی ماضی قریب میں پیپلزپارٹی کے متعلق مشہور تھا کہ وہ کھمبے کو بھی الیکشن میں ٹکٹ دیں تو وہ بھی کامیاب ہو جائے گا یہی وجہ تھی کہ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ءکے الیکشن میں لوئر مڈل کلاس طبقہ کے کارکنان کو ٹکٹس دیں جو بعدازاں منتخب بھی ہوئے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنے اَن مِٹ نقوش چھوڑے ، جن میں معراج خالد، حنیف رامے، کوثر نیازی، مبشر حسن ڈاکٹر غلام حسین اور ڈاکٹر جہانگیر بدر(مرحوم) کے نام شامل ہیں۔ قارئین! جب شہید بی بی بے نظیر بھٹو نے جہانگیر بدر (مرحوم) کو میرا بحیثیت فیڈرل کونسل رکن نامزدگی نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیا تو جناب ڈاکٹر جہانگیر بدر نے شہید محترمہ سے پوچھاکہ محترمہ آپ ہر سیاسی کارکن کو فیڈرل کونسل اور سی ای سی میں لے آئیں گی تو پھر پارٹی آگے کیسے چلے گی؟ تو محترمہ شہید بی بی نے تُرت جواب دیا کہ ”ہر سیاسی کارکن مطلوب وڑائچ نہیں ہوتا“ (یہ بات مجھے مرحوم جہانگیر بدر نے بعدازاں خود بتائی)
قارئین! اسی طرح ابھی چند سال پہلے مشرف کی قیادت اور چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی سربراہی کی وجہ سے ق لیگ کا سیاست میں طوطی بولتا تھا۔ 2008ءکے الیکشن سے پہلے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور مرکز میں ق لیگ کی حکمرانی تھی مگر 2005ءکے بلدیاتی الیکشن اور 2008ءکے جنرل الیکشن میں غیر مقبول فیصلوں کی وجہ سے آج حالات یوں ہیں کہ سیاسی خوردبین لے کر بھی ق لیگ کو ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ چوہدری خاندان کے برادرِ نسبتی ،داماد اور کزنز انہیں چھوڑ کر سکہ رائج الوقت یعنی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ میں نے سیاست کے ظلمت کدوں میں اس کھیل کو نہ صرف اپنی نظروں سے دیکھا ہے بلکہ خود 2008ءمیں جب پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو مجھے چھوٹے بھائی کا خطاب دینے والے زرداری صاحب نے بلاوجہ آنکھیں پھیر لیں اور میرے لیے یہ ایک بڑا سیاسی دھچکہ تھا اور یہ بات میرے لیے کسی سانحہ سے کم نہ تھی کہ مجھے ایک استعمال شدہ ٹِشو پیپر کی طرح پھینک دیا گیا تھا مگر میں نے شہید بی بی سے کئے ہوئے وعدوں کو اپنے لیے فرض سمجھا اور مسلسل سیاست کی منازل طے کیں اور الحمد اللہ آج پاکستان میں لاکھوں لوگ میری اور میری سیاست کے ویژن اور میری تحریروں اور صحافت کو پسند کرتے ہیں جبکہ اربوں روپے کے خزانوں اور وسائل سے بھی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت اپنی کھوئی ہوئی عزتِ نفس ووٹرز اور جیالوں کی نظر میں بحال نہ کر پائی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی لیڈر اقتدار کے قریب پہنچ کر یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہماری سیاست کی چاردیواری کے اندر کوئی ایسا شخص نہ آنے پائے جو مال بنانے کے فن سے ناآشنا ہو یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے اقتدار کے دنوں میں ان کے مخلص اور جانثار سیاسی ساتھیوں کو فراموش کر دیا جاتا ہے اور ایک رٹارٹایا جملہ زبان زدِ عام ہے کہ ”ریس میں جیتنے والے گھوڑے کو ہی بھیجا جاتا ہے“ جبکہ ان سیاسی بے وفائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے حضرت علی ؓ کا یہ خوبصورت قول یاد آتا ہے کہ ”ڈرو اس شخص کے شر سے جس پر تم نے کبھی کوئی احسان کیا ہو۔“
قارئین! جھورا جہاز اس وقت میرے پاس بیٹھا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے وڑائچ صاحب ایویں دل چھوٹا نہ کرو اور نہ ہی غلط فہمی کا شکار بنیں مجھے تو اب بھی یہ بیل منڈیر چڑھتے نظر نہیں آتی وہ کہہ رہاتھا کہ خدائی اور آسمانی مخلوق نگرانوں کے دوران میں بھی وارد ہو سکتی ہے۔