پانی کا ضیاع اور آبادی بم بھارتی آبی دہشتگردی سے کم خطرہ نہیں
آبی ماہرین نے کہا ہے کہ بڑھتی آبادی، بھارت کی آبی جارحیت اور پانی ضائع کرنے کا رویہ نہ بدلا تو وہ دن دور نہیں جب پانی کا حال بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ جیسا ہوگا۔ ماہرین نے مزید بتایا کہ ملک کے باقی شہروں کی طرح لاہور میں بھی پینے کے صاف پانی کی دستیابی مسئلہ بن گئی ہے، نام نہاد منرل واٹر خرید کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ لاہور شہر کے بیشتر علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے، ستر فٹ کی بجائے اب سات سو اور آٹھ سو فٹ گہرائی میں پانی مل رہا ہے۔
ماہرین آب نے تو پانی کے مستقبل میں سنگین مسئلہ بننے کی طرف توجہ دلائی ہے‘ لیکن آبادی بم بھی بھارتی آبی جارحیت کی طرح کم تباہ کن نہیں۔ آبادی کے غبارے میں گنجائش سے زیادہ گیس بھری جا چکی ہے اور وہ کسی وقت بھی پھٹ کر تباہی پھیلا سکتا ہے۔ جب وسائل آبادی کا ساتھ نہ دے سکیں تو ننگ اور افلاس کا خوفناک سیلاب آجاتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اب تک کی تمام ترقی خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ آج جس صورتحال کا ہمیں سامنا ہے‘ ہماری نااہلی اور منصوبہ بندی کا فقدان اس کی بڑی وجہ ہیں۔ ماضی میں زرعی شعبہ کو خاطرخواہ ترقی دی جا سکی اور نہ صنعتی سیکٹر کو۔ جمہوریت کا فقدان اور سیاسی عدم استحکام حکومتوں کیلئے یکسوئی کے ساتھ ان مسائل پر ضروری توجہ دینے کی راہ میں رکاوٹ بنتا رہا۔ مشینی زراعت رائج ہونے سے دیہی آبادی بُری طرح بیروزگاری سے دوچار ہوئی۔ بے روزگاروں کا بہاﺅ سیلاب کی طرح شہروں کی طرف بہہ نکلا جس سے شہری زندگی کا ہر شعبہ دباﺅ میں آگیا۔ رہائش‘ پانی‘ بجلی‘ تعلیم اور صحت کے مسائل پیدا ہوئے، بیروزگاری نے جرائم کو جنم دیا۔ قومی بے حسی کا یہ عالم ہے‘ ہم اندرونی و بیرونی خطروں سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو رہے ہیں۔ ایسے مسائل حل کےلئے قومی یکجہتی چاہتے ہیں جس سے ہم محروم ہیں۔ زیرزمین پانی کی سطح نیچے سے نیچے جا رہی ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کے نتیجے میں دریا خشک ہو گئے ہیں، زرخیز زمینیں بنجر بنتی جا رہی ہیں۔ ڈیموں میں پانی تھوڑا ہو جانے سے پن بجلی کی پیداوار کم اور لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے۔ مگر ہم دستیاب پانی کو بُری طرح ضائع کر رہے ہیں۔ پوش علاقوں کا یہ عالم ہے کہ کوٹھی اور اسکے گیراج میں کھڑی چار پانچ گاڑیوں کو روزانہ ضرور دھونا ہوتا ہے۔ اگر ہم نے پانی کو بلا ضرورت استعمال کرنا ترک نہ کیا اور آبادی پر کنٹرول پانے کی کوشش نہ کی تو خدانخواستہ ہم دوسرا صومالیہ بن جائینگے۔