اجلاس کے موقع پر پاکستان‘ چین اور روس کے مابین غیررسمی بلاک کی تشکیل خوش آئند ہے
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں امریکی پالیسیوں پر تنقید اور دہشتگردی کیخلاف تعاون پر اتفاق
شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے رکن ممالک کے مابین پائیدار دوستانہ تعلقات اور دہشت گردی‘ انتہاءپسندی‘ ماحولیاتی آلودگی اور منشیات کیخلاف تعاون پر اتفاق کیا ہے۔ چین کے شہر چنگ ڈاﺅ میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے دو روزہ اجلاس کے بعد جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ کیمطابق بھارت کے سوا تمام رکن ممالک نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر تعاون جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا جبکہ اجلاس میں ایران جوہری معاہدہ برقرار رکھنے اور اس پر عملدرآمد کا تقاضا کیا گیا اور افغان امن کوششوں کے علاوہ شام کی خانہ جنگی رکوانے کی کوششیں بھی جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین نے اپنے خطاب میں افغان صدر کی جانب سے طالبان کو جنگ بندی کی پیشکش کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام ہماری مشترکہ خواہش ہے اور اس سلسلہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت افغان رابطہ گروپ کا قیام خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کا سدباب کرکے قیمتی تجربات حاصل کئے ہیں۔ پاکستان امن و استحکام کیلئے ہمیشہ کی طرح تعاون جاری رکھے گا۔ انکے بقول پاکستان میں چند برسوں کے دوران امن و امان کی صورتحال مستحکم ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں جمہوری اقدار اور ادارے بھی مضبوط ہوئے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں مزید اقتصادی استحکام آئیگا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک نے پاکستان کی کامیابیوں کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں توسیع کے بعد یہ آٹھ باضابطہ رکن ممالک کے سربراہان کی پہلی سمٹ ہے جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ انکے بقول شنگھائی تعاون تنظیم دنیا میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ آبادی کی حامل علاقائی تعاون کی ایک تنظیم ہے جس کا اقتصادی حجم دنیا کا 20 فیصد ہے اور اسکے رکن ممالک کی مجموعی آبادی اقوام عالم کی آبادی کا 40 فیصد بنتی ہے چنانچہ یہ علاقائی امن و ترقی اور بین الاقوامی انصاف کے تحفظ کیلئے ایک اہم قوت بن چکی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم بین الاقوامی تعلقات کے نئے باب کا آغاز کررہے ہیں۔ انکے بقول دنیا میں بالادستی اور دباﺅ کی سیاست بدستور موجود ہے تاہم بین الاقوامی نظم و نسق کو مزید معقول اور منصفانہ بنانے کی آواز کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں امریکہ کا نام لئے بغیر اسکی جانب سے عائد کی گئی تجارتی پابندیوں پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ خودغرض اور محدود پالیسیوں کے بجائے آزاد عالمی معیشت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اس کانفرنس کے موقع پر صدر ممنون حسین کی روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات بھی ہوئی اور دونوں قائدین نے باہمی تجارت‘ توانائی‘ سکیورٹی‘ ثقافت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ سربراہ اجلاس کے موقع پر صدر ممنون حسین اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک دوسرے سے مصافحہ اور غیررسمی گفتگو کی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سربراہان حکومت و مملکت کے مابین دوطرفہ ملاقات طے نہیں تھی۔
شنگھائی تعاون تنظیم ابتدائی طور پر 26 اپریل 1996ءکو پانچ رکنی شنگھائی گروپ کے طور پر شنگھائی میں تشکیل پائی تھی جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے نام سے علاقائی تعاون کی اس تنظیم کا باضابطہ قیام 15 جون 2001ءکو عمل میں آیا جس کے بنیادی رکن ممالک میں چین کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستیں قازقستان‘ کرغیزستان‘ روس‘ تاجکستان اور آذربائیجان شامل تھیں۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد علاقائی امن و سلامتی کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تجارتی روابط استوار کرنا تھا۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنا بھی طے پایا۔ پاکستان‘ بھارت‘ ایران اور منگولیا نے جولائی 2005ءمیں آستانہ (قازقستان) میں منعقدہ شنگھائی سربراہ کانفرنس میں پہلی بار مبصر کی حیثیت سے شرکت کی اور جولائی 2015ءمیں اوفا (روس) میں منعقدہ سربراہی کانفرنس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم کی باقاعدہ ممبرشپ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ ان دونوں ممالک نے جون 2016ءمیں تاشقند میں منعقدہ سربراہی اجلاس کے موقع پر تنظیم کے میمورنڈم آف اوبلیگیشن پر دستخط کئے اور 9 جون 2017ءکو آستانہ میں منعقدہ سربراہی اجلاس کے دوران پاکستان اور بھارت کو تنظیم کا مکمل ممبر بنانے کی منظوری دے دی گئی۔
اگرچہ بھارت کی اس تنظیم میں شمولیت سے علاقائی امن و امان اور باہمی تعاون کی کوششوں کے بارآور ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے تھے کیونکہ اس خطے میں اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں بھارت کا ٹریک ریکارڈ اسکے توسیع پسندانہ عزائم میں لپٹا ہوا ہی نظر آتا ہے جبکہ علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کو جس طرح بھارت نے اپنی کٹھ پتلی بنا کر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا اور پھر گزشتہ سال اسلام آباد میں سارک سربراہی اجلاس میں رخنہ اندازی کرکے اس تنظیم کو غیرمو¿ثر بنایا‘ اسکے تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کی باقاعدہ شمولیت اس تنظیم کے بھی سارک والے انجام سے دوچار ہونے کی بنیاد رکھتی نظر آئی۔ تاہم یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ چین اور روس نے شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کا عمل دخل بڑھنے نہیں دیا اور اسکے چنگ ڈاﺅ سربراہی اجلاس کے موقع پر پاکستان‘ روس اور چین نے اپنی سائیڈلائن میٹنگ میں باہمی تعاون کے حوالے سے اپنا ایک غیرسرکاری بلاک بنالیا ہے۔ کانفرنس کے ذرائع کےمطابق چین اور روس نے قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور اس حوالے سے پاکستان کو مکمل تعاون کا بھی یقین دلایا جبکہ ان دونوں ممالک کے سربراہان نے افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کے مو¿قف کی تائید کی اور پاکستان کے بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل میں بھی مدد کی یقین دہانی کرائی۔ اس صورتحال کو شنگھائی تعاون تنظیم کے ذرائع پاکستان‘ چین اور روس پر مشتمل ایک غیراعلانیہ بلاک کی تشکیل سے تعبیر کررہے ہیں۔
کانفرنس میں چین کے صدر نے اقتصادی پابندیوں سے متعلق امریکی پالیسی کو جس انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا وہ اس خطے کے ممالک ہی نہیں‘ مسلم دنیا کیلئے بھی ایک حوصلہ افزاءپیغام ہے کیونکہ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ سے علاقائی اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں طاقت کا توازن بھی خراب ہوتا نظر آرہا تھا جس کے نتیجہ میں امریکی صدر ٹرمپ دہشت گردی کا ملبہ ڈال کر مسلم دنیا کو سخت دباﺅ میں رکھنے کی اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوتے نظر آرہے تھے۔ انہوں نے اسی تناظر میں مسلم دنیا کیخلاف اپنی تعصبانہ پالیسیوں پر عملدرآمد کا آغاز کیا جس کے تحت پاکستان کی فوجی امداد بند کرکے اسے مزید سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ دنیا بھر کی مخالفت اور مزاحمت کے باوجود مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کیلئے امریکی سفارتخانہ منتقل کیا گیا اور پھر ایران پر جوہری پھیلاﺅ کا الزام لگا کر اسکے ساتھ جوہری تعاون کا معاہدہ ختم کر دیا گیا اور اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوادی گئیں۔ یہی وہ صورتحال تھی جو خطے کے ممالک کے ایک بلاک کی شکل میں امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل گٹھ جوڑ کے توڑ کی متقاضی تھی چنانچہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر چین‘ روس اور پاکستان کا ایک غیررسمی بلاک کی شکل میں باہمی تعاون پر اتفاق اس خطے میں امریکہ‘ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے مضر اثرات زائل کرنے اور جنوبی ایشیائ‘ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی دنیا میں مستقل قیام امن کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان‘ چین اور روس کے مابین پہلے ہی ہم آہنگی کی فضا استوار ہورہی تھی۔ اب شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر اس تنظیم کے آٹھ رکن ممالک‘ چار مبصرین‘ چھ ڈائیلاگ پارٹنرز اور چار مہمان ممالک کے مابین اقتصادی‘ تجارتی شعبوں اور دہشت گردی کے خاتمہ کی کوششوں میں باہمی تعاون پر اتفاق ہوا ہے تو اسکے ساتھ ہی ساتھ چین اور روس نے پاکستان کے بھارت کے ساتھ تنازعات کے تصفیہ کیلئے بھی کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سے مسئلہ کشمیر اور پانی سمیت بھارت کے ساتھ جاری تنازعات میں یقیناً پاکستان کے موقف کو تقویت حاصل ہوگی جو ایک طرح سے بھارت کے مقابلہ میں پاکستان کیلئے اضافی حمایت ہے چنانچہ ہم اب اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اور علاقائی فورموں پر بھی چین اور روس کے تعاون سے اپنے کشمیر کاز کو مو¿ثر انداز میں پیش کر سکیں گے۔ اس تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی باقاعدہ شمولیت ہمارے لئے نیک فال ثابت ہو سکتی ہے اور سی پیک کیخلاف جاری بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے میں بھی معاون بن سکتی ہے۔ بھارت سی پیک کو ہی سبوتاژ کرنے کے درپے نہیں بلکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے جو درحقیقت اس منصوبے پر امریکہ کے تحفظات ہیں کیونکہ اس سے امریکہ کو خطے میں اپنی بالادستی کو خطرات لاحق نظر آرہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے ہمیں بلاشبہ چین‘ روس اور پاکستان کے غیررسمی بلاک کی شکل میں ایک تحفہ دیا ہے جس کے ہماری معیشت ہی نہیں‘ ہماری دفاعی استعداد پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔