پاکستان میں شہری ہوا بازی
یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ پاکستان کے لیے قیام پاکستان سے قبل اورینٹ ایئر ویز کا قیام قائد اعظم محمد علی جناح کے اصرار پر کیا گیا تھا۔ ان کا یہ اصرار زبانی یا سیاسی نہیں تھا بلکہ انہوں نے سب سے پہلے اپنی ذاتی آمدنی سے 25 ہزار روپے کے شیئرز بھی خریدے تھے۔ قائد اعظم جانتے تھے کہ ہندوستان میں ایک نئی ایئر لائن کا قیام گھاٹے کا سودا ہوگا لیکن موجودہ حکمرانوں کے برعکس ان کا مقصد منافع کمانا نہیں تھا، وہ جانتے تھے کہ آئندہ برسوں میں پاکستان بن جائے گا اور نو آزاد مسلم مملکت کو اپنی ایک ایئر لائن کی ضرورت ہوگی۔ لہٰذا قائد اعظم کے کہنے پر اصفہانی اور آدم جی گروپ اور ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے اورینٹ ایئر ویز بنیاد رکھی۔ جس کے لیے امریکہ سے چار DC-3 ڈکوٹا طیارے خریدے گئے تھے۔ 1946ء میں کلکتہ سے باقاعدہ پروازوں کا آغاز کیا گیا اور قیام پاکستان کے بعد اورینٹ ایئر ویز کا ہیڈ آفس کراچی منتقل کر دیا گیا جبکہ یہی طیارے مہاجرین کو بھارت سے پاکستان منتقل کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ 1955ء میں نجی اورینٹ ایئر ویز کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کارپوریشن بنا دیا گیا۔ تاہم مسافروں کی تعداد بڑھنے کے باوجود ایئر لائن کو خسارہ ہوتا رہا جس کی کئی ٹیکنیکل اور انتظامی وجوہات تھیں۔1960ء کی دھائی میں پی آئی اے کو دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار کیا جانے لگا تھا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت پاکستان کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی جبکہ قومی ایئر لائن کے پاکستانی ملازمین کی تعداد بہت کم تھی جن کی تربیت ایئر لائن کے امریکی اور برطانوی اسٹاف نے کی تھی۔ تیسری ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس دور میں سیاسی بھرتیوں اور اعلی عہدوں پر سیاسی تقرریوں کا تصور نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایئر مارشل نور خان اپنے عہد میں جو کام کر گئے اس کے بعد شاید یہ تصور کر لیا گیا کہ کسی بھی سیاسی چہیتے ریٹائرڈ ایئر مارشل کی پی آئی اے یا سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری کی جائے گی چاہے وہ اس عہدے کے اہل ہو یا نہ ہو یا انہیں سرکاری نوکری سے برطرف ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔
یہ زیادہ دن پرانی بات نہیں ہے کہ ایئر مارشل (ریٹائرڈ) عاصم سلیمان کو سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ان کے رویے کے خلاف ہونے والی بغاوت کے بعد یکم مارچ 2018ء کو کیبنٹ سیکریٹریٹ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری محمد حمزہ شفقت کی جانب سے جاری کیے جانے خط کے ذریعے کے ڈی جی کے عہدے کا کنٹریکٹ ٹرمینیٹ کیا گیا تھا۔ جس کی خبر خط کے عکس کے ساتھ کئی اخبارات میں شائع کی گئی تھی، لیکن پھر 29 مئی کو یہ خبر شائع ہوئی کہ حکومت جاتے جاتے ایئر مارشل (ریٹائرڈ) عاصم سلیمان کا بطور چیئر مین پی آئی اے تقرر کر گئی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسا کوئی شخص دوبارہ کسی سرکاری ادارے میں ملازمت حاصل کر سکتا ہے جسے پہلے ہی سرکاری نوکری سے برطرف کیا گیا ہو؟ جبکہ اس تقرری کے لیے پی آئی اے کی جانب سے سی ای او کے عہدے کے لیے دیے جانے والے اشتہار میں مقرر کیے گئے معیارات کو بھی بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ اس سے پہلے حکومت نے پی آئی اے کے لیے ایک جرمن چیئرمین امپورٹ کیا تھا جو ایک طیارہ ہی ردّی کے بھائو بیچ کر ملک سے جا چکا ہے۔ سرکاری اداروں میں ایسی سیاسی تقرریوں پر نہ جانے کیوں خواجہ معین الدین کے مشہور ڈرامہ ’’تعلیم بالغاں‘‘ وہ ڈائیلاگ یاد آ جاتا ہے جس میں مولوی صاحب نے اپنے شاگردوں کو ووٹ اور بڑے عہدے کی اہمیت کے بارے میں سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہزار دفعہ پڑھا چکا ہوں ’و‘ سے ووٹ، ووٹ کا ’و‘، زیر تعلیم کے آگے لگا دیتے ہیں تو زیر تعلیم، وزیر تعلیم بن جاتا ہے۔‘‘ جس پر دوسرا شاگرد کہتا ہے ’’آ ہاہا۔ کیا اللہ کی شان!‘‘ اس تبصرے پر مولوی صاحب شاگرد کو چھڑی سے مارتے ہوئے کہتے ہیں ’’بتائوں اللہ کی شان؟‘‘ یہ بات لگ بھگ 65 برس پہلے لکھی گئی تھی لیکن آج بھی بار بار سرکار اور سرکاری اداروں ایسی ’’شان‘‘ کا ظہور ہوتا ہی رہتا ہے۔
پاکستان میں شہری ہوا بازی کی زبوں حالی پر بات کی جائے تو مسلم لیگی رہنما یہ کہیں گے کہ ہم نے 2015ء میں نئی نیشنل ایوی ایشن پالیسی بنائی تھی۔ لیکن اس پالیسی پر پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ امریکہ کی Embry-Riddle Aeronautical University کے طلبا کی بنائی ہوئی ایک رپورٹ کی نقل ہے۔ کوئی بھی آئی ٹی پروفیشنل اس اعتراض کی چند منٹ میں تصدیق یا تردید کر سکتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پالیسی بناتے وقت ایئر لائن اور ایوی ایشن پروفیشنلز سے مشورہ اور رائے لینے سے گریز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مقامی ایئر لائنز کو نقصان پہنچا ہے اور خلیجی ایئر لائنز پاکستان سے فائدے سمیٹ کر لے جا رہی ہیں۔ پالیسی کے تحت پاکستانی ایئر لائنز پر پرانے طیارے اڑانے پر پابندی لگائی گئی ہے وہیں غیر ملکی ایئر لائنز کو پاکستان میں پرانے طیارے کی اجازت دی گئی ہے جس وجہ سے پاکستانی ایئر لائنز پر مالی بوجھ بڑھ گیا ہے کیونکہ نئے طیارے بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ڈومیسٹک روٹس پر ٹکٹ مہنگے ہوتے جا رہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ایئر لائن ٹکٹ سستے ہوتے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ایئر لائنز کا بزنس بڑھ رہا ہے۔ چند چھوٹے طیاروں کے ساتھ شروع ہونے والی ایئر لائنز آج 100 سے زیادہ نئے طیاروں کی مالک بن چکی ہیں۔ دنیا میں شہری ہوا بازی جس طرح ترقی کر رہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ IATA کے مطابق آج دنیا بھر میں ہر سال 3 ارب سے زیادہ مسافر طیاروں سے سفر کرتے ہیں اور دنیا بھر کے 35 فیصد سامان تجارت کی ترسیل طیاروں کے ذریعے ہوتی ہے، قیاس کیا جا رہا ہے کہ 2030ء میں فضائی مسافروں کی تعداد بڑھ کر 5 ارب سالانہ ہو جائے گی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آئندہ 12 برسوں دنیا کو مزید طیاروں اور انہیں اڑانے والے پائلٹس، انجینئرز، ٹیکنیشنز، ایئر لائنز اور ایوی ایشن انڈسٹری کے دوسرے متعلقہ شعبوں کے اسٹاف کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔