یوم تاسیس اے پی ایم ایس او
سیاست اور ریاست دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ ملک ،ریاست ، سیاست، جمہوریت، آمریت سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں سیاست کے مدوجزر میں آمریت ، جمہوریت، سب نظر آئیں گے لیکن جس کو چھیڑا جائے اسکی ایک نئی داستاں ہوگی۔ پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک طلبہ جماعتوں کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے خود قائد اعظم محمد علی جناح ایم ایس ایف مسلم اسٹوڈینٹس فیڈریشن کو پسند اور اسکے اجتماعات کو خاص اہمیت دیتے رہے۔ یہ کہا جائے کہ جمہوریت کی نرسری اگر طلبہ جماعتیں ہیں تو بے جا نا ہوگا۔ بد قسمتی سے جنرل محمد ضیاء الحق نے ،مارشل لاء دور میں طلبہ تنظیموں پر جو پابندی لگائی تو آج تک کسی بھی تدریسی اسکول ،کالج ، یونیورسٹی میں انتخابات نہیں ہو سکے۔طلبہ تنظیمیں تو موجود ہیں لیکن الیکشن کا کوئی تصور نہیں خود جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتیں بھی اقتدار میں آکر اس عمل کو بحال کرانے میں سنجیدہ نہیں رہیں ۔ جمعیت جسے اسلامی جمعیت طلبہ کہا جاتا ہے ۔ جماعت اسلامی کی ، پیپلز اسٹوڈینٹس فیڈریشن پیپلز پارٹی کی، پختون اسٹوڈینٹس فیڈریشن ، اے این پی کی، بلوچ اسٹوڈینٹس فیڈریشن بلوچستان کے قوم پرستوں کی، پنجابی اسٹوڈینٹس ایسوسی ایشن پنجابی پختون اتحاد، اے پی ایم ایس او ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیمیں ہیں اسی طرح متعدد طلبہ جماعتیں ہیں جو مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طلبہ جماعتیں ہیں۔ ان تمام طلبہ تنظیموں کو سیاسی یا مذہبی جماعتوں نے جنم دیا ہے جبکہ واحد اے پی ایم ایس او (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن ) نے سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ ایم کیو ایم کو جنم دیا۔ جو سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ طلبہ جماعتوں کی یہ بھی تاریخ رہی کہ وہ لیفٹسٹ یا رائٹسٹ جماعتیں رہیں ۔ لیکن 11جون 1978کو جنم لینے والی اے پی ایم ایس او حالات کے جبر ، نا انصافیوں ، مہاجر عوام و طلبہ و طالبات کو تیسرے درجہ کا شہری ، حقوق کے نام پر استحصال کے خلاف بنی تھی۔ پر امن مہاجر اپنوں اور بیگانوں کے وار سہتے ہوئے آج بھی سب کے ساتھ ملکر چلنے کی کوششوں میں کچل کچل کر ایک طویل دور اقتدار کے باجود پابند سلاسل اور حقوق کا مارا ہے آج بھی اسے تیسرے اور چوتھے درجے کے شہری ہونے کی صورتحال کا سامنا ہے۔ سب کو ساتھ لیکر چلنے کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ نام رکھنے کے باوجود اسے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اے پی ایم ایس او سے ایم کیو ایم تک بھی آپریشن کچلنے اور مہاجروں کوسن آف دی سوائل نہ ماننے کی روش نے آج بھی انہیں بندگلی میں لاچھوڑا ہے۔ جو حکومت وقت اور ارباب اختیار کے لئے سوال ہے کہ آخر اردو بولنے والے پاکستان کے قیام کے 71سال بعد بھی مہاجر کہنے پر کیوں مجبور ہیں؟ میں اے پی ایم ایس او کے بنیادی منشور کے نکات واضح کردوں جو 1978میں تھے۔ 1۔ جامعہ کراچی کی گرانٹ سب سے کم تھی آج بھی یہی صورتحال ہے وجہ یہ ہے کہ اسے ایم کیو ایم نے بہتر کیا تھا ۔ اب ایم کیو ایم گزشتہ 5برس سے اپوزیشن میں رہی۔ ان اداروں کا وہی حال کردیا گیا۔ گورنر سندھ سے چانسلری چھین لی گئی۔ 2۔ ٹرانسپورٹ کرایوں میں طلبہ کے لئے رعایت اور ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کی طرح کرایہ کی وصولی، لیکن یہ بھی ندارد، سرکاری ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اور رعایت کا کوئی تصور نہیں۔ جامعات کو ملی بسیں کسی نہ کسی طرح گزارا کر رہی ہیں۔ 3۔ تعلیمی اداروں بالخصوص اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں میں مہاجروں کے استحصال اور نفرت کی صورتحال کا خاتمہ، یہ سلسلہ آج بھی دراز ہے ۔ جامعہ سندھ میں اردو پر پابندی لگا دی گئی۔ سندھو دیش کا ترانہ بجایا گیا وائس چانسلر اسکے احترام میں کھڑے رہے۔4۔ مہاجروں کو تیسر درجے کا شہری بنانے اور انکے استحصال کے خاتمے کا مطالبہ، یہ عمل شدو مد کے ساتھ اسوقت بھی جاری ہے۔5۔ کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ۔ کوٹہ سسٹم ختم ہونے کے باوجود اسے جبرا لاگو رکھا گیا ہے جو عصبیت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ 6۔ مہاجروں کے ساتھ استحصال کے خاتمے ، انہیں ملک کی دیگر اکائیوں کی طرح پانچویں قومیت ماننے کا مطالبہ، 7۔ مہاجرین مشرقی پاکستان کی وطن واپسی کو یقینی بنانا۔ 8۔ اگر مہاجروں کی ہر سطح پر تذلیل انہیں ملازمتوں اور دیگر نا انصافیوں کا شکار اور انصاف نہ فراہم کیا گیا تو پانچویں صوبے کے قیام کے لئے آئین کے مطابق جدوجہد کرنا۔ یہ چند چیدہ چیدہ مطالبات اے پی ایم ایس او کے پلیٹ فارم سے اجاگر کئے گئے تھے۔ جبکہ جب اسلامی جمعیت طلبہ نے اے پی ایم ایس او کو 1981میں جامعہ کراچی سے باہر کردیا ۔ تعلیمی اداروں میں انکی اینٹری بند کردی گئی تب یہ طلبہ تنظیم علاقوں کی جماعت بن گئی۔ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن نے ایک سیاسی جماعت اور طلبہ تنظیم دونوں کا کام کیا۔سیاسی پنڈت اس بات سے لاعلم ہیں کہ اے پی ایم ایس او کی سپورٹ لیکر مہاجر ہونے کی بنیاد پر جمعیت علمائے پاکستان اور اسوقت کی دیگر مذہبی جماعتیں کامیابی حاصل کرتی رہی ہیں ۔ جس میں پی پی پی کے امیدوار بھی شامل تھے۔ جن میں شاہ فرید الحق، مسعود قریشی، ممتاز قیصر، نصیر کباڑیہ، شاہ تراب الحق قادری، فیض محمد فیضی، زہیر اکرم ندیم ، آفاق شاہد، حسیب ہاشمی، رازق خان ایڈووکیٹ، وصی مظہر ندوی، نواب زادہ راشد و دیگر شامل تھے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ تمام جماعتوں کی حمایت کی گئی انہیں کامیاب کرانے میں اہم کردار بھی ادا کیا گیا۔ اسوقت کے اخبارات گواہ ہیں کہ بانی اے پی ایم ایس او کاشکریہ ادا کیا گیا۔ یہ سلسلہ ایم کیو ایم کے قیام کے بعد بھی جاری رہا۔ ایم کیو ایم نے 1987میں بلدیاتی اور 1988میں عام انتخابات میں حصہ لیا۔ اس سے قبل جسکی حمایت ایم کیو ایم نے کی وہ کامیاب ہوا۔ اے پی ایم ایس او کے پلیٹ فارم سے طلبہ تنظیم نے قومی سطح کے لیڈرز نکالے جس میں عظیم احمد طارق، ڈاکٹر عمران فاروق، سید امین الحق، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹرفاروق ستار، محمد عامر خان ،زرین مجید، شہود ہاشمی مرحوم سمیت متعدد رہنما شامل ہیں ۔ اے پی ایم ایس او ہی نے ڈاکٹر سلیم حیدر کو روشناس کرایا، اے پی ایم ایس او ہی سے آفاق احمد کی شناخت تھی۔ شاہد لطیف مرحوم ، الطاف کاظمی، طارق مہاجر ، ایس ایم طارق، بدر اقبال ، سلیم شہزاد، طارق جاوید ، متین یوسف، اسحاق خان شیروانی مرحوم ندیم احمد، یہ سب مہاجر سیاست آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن سے متعارف ہوئے ۔ مہاجر قومی موومنٹ کے 18مارچ 1984کو قیام کے بعداے پی ایم ایس او مہاجر طلبہ جماعت کی حیثیت سے کام کرتی رہی ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قیام کے کچھ عرصے بعد تک بھی کام کرتی رہی ۔ بعد ازاں اسکا نام آل پاکستان متحدہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن ہوگیا۔ اب یہ اسی نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔اسوقت اے پی ایم ایس او کے انچارج حاٖفظ شہریار ہیں۔ یہ طلبہ تنظیم انتہائی تکلیف دہ مدارج سے گزر کر کندن بنی ہے۔ اے پی ایم ایس او وابستہ شخصیات اس وقت اہم عہدوں پر ہیں ۔ جبکہ طلبہ جماعت نے ایم کیو ایم کے مختلف شعبوں کو اسٹرونگ کیا ۔ جس میں گیم ونگ، ادبی ، رسالہ کا اجرائ، گہوارہ ادب مختلف شعبہ جات جس میں نیوز، شعبہ اطلاعات خاص طور پر شامل ہیں ۔ جبکہ اسی سے حیدر عباس رضوی ، واسع جلیل، ارشد حسین ، فیصل سبزواری اور متعدد شخصیات ایم کیو ایم کا حصہ بنیں۔ اے پی ایم ایس او مدر جماعت کی حیثیت سے کارکنان و ذمہ داران جنم دیتی رہی۔ سیاسی جماعت کوآج بھی یہی جماعت ایندھن فراہم کرتی ہے اس سے وابستہ افراد اہم عہدوں پر رہے ۔ اگر تاریخی معاملات کا تذکرہ کریں تو اے پی ایم ایس او نے کندن سیاست داں پیدا کئے ۔ دانشور، ڈاکٹر، ایڈوکیٹ اور ہر متبہ فکر کے افراد پیدا کئے یہ جماعت آج بھی پارٹی کا اہم جز ہے ۔ APMSOکا 40واں یوم تاسیس ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ میں بھی اسی طلبہ تنظیم کا حصہ رہا۔آج کالم نویس اور ایک کتاب کا مصنف ہوں یہ بھی کریڈٹ اے پی ایم ایس او کو جاتا ہے۔ اس طلبہ تنظیم سے نوجوان صلاحیتوں کے ساتھ نکل کر نکھر کر ایم کیو ایم کو سنبھال رہے ہیں یہی اس تحریک کے اصولوں ، نظم و ضبط ، فکری اور تربیتی نشستوں کا کمال ہے کہ اے پی ایم ایس او ایم کیو ایم کا ایندھن ہے۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی خود چیئرمین اے پی ایم ایس او رہے ہیں اور آج ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ہیں اس سے بڑی مثال نہیں دی جاسکتی۔ اے پی ایم ایس او کے یونٹ انچارج سندھ میڈیکل کالج ڈاکٹر فاروق ستار 1987میں میئر کراچی بنے۔ پہلی قومی اسمبلی میں ڈاکٹر عمران فاروق، فاروق ستار، سید امین الحق، سلیم شہزاد، محمود ہاشمی، کا تعلق اے اپی ایم ایس او سے تھا اسی طرح سندھ اسمبلی میں زرین مجید، طارق جاوید، بدر اقبال ، اقبال قریشی کا تعلق اے اپی ایم ایس او سے تھا، یہ بنیادی طور پر انسٹی ٹیوشن کا درجہ رکھتی ہے ۔ جسکی آبیاری عظیم احمد طارق، ڈاکٹر عمران فاروق، ایس ایم طارق، بدر اقبال ، شہود ہاشمی ، ریحان عمر فاروقی نے اپنے خون کی آبیاری سے کی ہے۔ اسکی سرپرستی اور اس سے ٹیلنٹ نکل نکل کر ایم کیو ایم کو قومی جماعت بنا کر مضبوط قوت بنائے گا۔ ایم کیو ایم کو بنیادی مطالبات پر دوبارہ توجہ دینے اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اے پی ایم ایس او کی بنیادی فلاسفی اور مقصد کو آئین اور قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے بامقصد جدوجہد سے نا انصافیوں کا پر امن جدوجہد سے حل نکالا جائے۔