میں مذہبی آدمی نہیں مگر میں غیر مذہبی آدمی بھی نہیں ہوں۔ آدمی مولوی نہ ہو مگر مسلمان تو ہو۔ ہمارے حکمران پوری طرح مسلمان ہوں تو یہ ملک جنت کا نمونہ بن جائے۔ میں ایک خواب دیکھنے والا آدمی ہوں۔ میں علمائے دین کی محفلوں سے گھبراتا ہوں کہ وہ تقویٰ سے زیادہ فتویٰ پر یقین کرنے لگے ہیں۔ ہماری بے یقینیوں کی نجانے کتنی قسمیں ہیں۔ یہ باتیں 10 جون کو جامعہ نعیمیہ میں شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی برسی پر ایک بھرپور تقریب میں میری طرف سے کہی گئیں۔ صدارت شہباز شریف نے کی۔ شریف فیملی اور نعیمی فیملی کے بڑے دیرینہ تعلقات ہیں۔ مرحوم میاں محمد شریف نواز شریف اور شہباز شریف یہاں آتے رہتے ہیں۔ شہباز شریف کو بتایا گیا کہ شہید سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ خودکش دھماکہ کرنے والا تو مر گیا مگر وہ تو ہیں جنہوں نے یہ منصوبہ بنایا۔ وہ کہاں ہیں۔ اس کے بعد بھی دھماکے کرتے ہیں اور ہمارے نااہل پولیس والے اس کا کھوج لگانے کی کوشش ہی نہیں کرتے دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کی فائل داخل دفتر ہو جاتی ہے۔ رحمان ملک بھی جائے واردات پر ہو کے آ جاتا اور صوبائی حکمران بھی یہی معرکہ سر کرتے ہیں اور قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔
آخر کچھ تو بات ہے کہ علماءبھی مشائخ بھی ہیں مگر ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو نشانہ بنایا گیا۔ یہی ان کی انفرادیت اہمیت اور عظمت ہے۔ جس کے دل میں بے قراریوں کے تلاطم تھے وہ جن سرشاریوں میں رہتا تھا۔ عشق رسول اس کے وجود میں وجد کرتا تھا۔ وہ موٹر سائیکل پر لاہور میں پھرتا تھا سادہ اور آسودہ۔ مجھے ان کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے بھی شہر میں بہت موٹر سائیکل چلائی ہے۔
ان کے صاحبزادے ڈاکٹر راغب نعیمی اپنے عظیم والد کے ہمشکل ہیں ہمراز ہیں اور ہمسفر ہیں۔ شہید کا سفر جاری رہتا ہے۔ کچھ شہید غازی کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں یاد کرنے سے کئی حوصلے دلوں میں آباد ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر راغب نعیمی بھی سادہ اور آسودہ ہیں۔ دونوں باپ بیٹا کو مولانا کوئی نہیں کہتا۔ ہر کوئی ڈاکٹر کہتا ہے۔ یہ بھی ایک راز ہے اور یہ بھی ایک راز ہے کہ راغب صاحب بھی لالچ اور خوف سے بے نیاز ہیں۔ مجھے بھی یہ جرا¿ت ایسے ہی دوستوں کی کمٹمنٹ سے سنبھالے رکھنے کی توفیق ملی ہوئی ہے۔ شہباز شریف سٹیج پر تھے تو میں نے کہا کہ آپ یہاں آئے ہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ اس مدرسے کے بچوں بچیوں کو بھی لیپ ٹاپ دیجیئے۔ اعلیٰ ذہانتوں کے طلبہ و طالبات کی عزت افزائی ایک بڑا کام ہے۔ ان بچوں کو گارڈ آف آنر دلوایا گیا جبکہ حکمران اور افسران اپنے علاوہ کسی کو آنرایبل نہیں سمجھتے۔ انگریزی پڑھنے والوں کو لیپ ٹاپ اور دینی مدرسوںکے بچوں کو لالی پاپ کچھ مناسب نہیں۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں اس کا وعدہ کر لیا۔
میں ایک حیرت اٹھائے پھرتا تھا وہ میں نے شہباز شریف کے سامنے رکھ دی۔ وفاقی بجٹ میں مسلم لیگ ن نے بڑا شور مچایا۔ احتجاج کیا۔ احتجاج حق ہے مگر مارکٹائی گالم گلوچ کوئی اچھی روایت تو نہیں پھر کالم نگار کالم کلوچ کرتے ہیں تو وہ خفا ہوتے ہیں۔ مگر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن یعنی پیپلز پارٹی والے بڑے احترام اور اطمینان سے پنجاب بجٹ سنتے رہے۔ اتنا انہماک ہے تو خود مسلم لیگ ن والوں نے بجٹ نہ سنا ہو گا۔ وہ سن بھی لیں تو ان کو کیا سمجھ آئے گا۔ تو کیا شہباز شریف کے پاس کوئی تعویذ وغیرہ یا چھو منتر ہے جو پیپلز پارٹی والوں کی بولتی بند کر دیتا ہے۔ لوگ اور پریشان بھی ہیں۔ میرے لئے پنجاب اپوزیشن کی تعریف کرنا مشکل ہے جسے وفاقی اپوزیشن کی مذمت کرنا مشکل ہے۔ یہ بھی کوئی مفاہمت کی سیاست تو نہیں مفاہمت میں مزاحمت بھی ہوتی ہے اور مزاحمت میں مفاہمت بھی ہوتی ہے مگر یہ نظر نہیں آنی چاہئے مگر لوگوں کو تو سب کچھ نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں سارے بجٹ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سارے حکمران ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بجٹ بھی حکومتی پالیسی ہوتی ہے اور سب سمجھتے ہیں کہ حکومتوں کی پالیسیاں کیا ہوتی ہیں۔
اسی حوالے سے میں نے عرض کیا کہ جو بھی حکمران اور سیاستدان اٹھتا ہے۔ یہی کہتا ہے کہ ہم غریبی کو ختم کر دیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ غریبی کو ختم نہ کرو تھوڑی سی امیری کو ختم کر دو۔ غریبی خودبخود ختم ہو جائے گی۔ اس بات کا ذکر شہباز شریف نے بہت کیا اور میرے خیالات کا حوالہ دے کے اس بات کی تائید کی۔ انہیں خبر ہے کہ وہ خود بھی امیر کبیر ہیں۔ دولتمند اگر دردمند ہو تو برا نہیں ہوتا۔ شہباز شریف ایک لیڈر بن سکتا ہے مگر وہ اپنے لاڈلے شیروں کے چنگل سے نکلے کہ وہ پچھلی ہر حکومت کے مشیر تھے۔ اپنے دل کی گواہی سے آگے بڑھنا چاہئے کہ یہی معرکہ روح و بدن کی سب سے بڑی سچائی ہے۔
میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اپنے دل کی سچائی‘ دین و دنیا کی بھلائی کیلئے زندگیاں لگانے والے اور زندگیاں قربان کرنے والوں کو ہم یاد کرتے ہیں اور یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی ان کی رقابت اور رہنمائی ہمیں ملتی رہتی ہے۔ کیا کبھی کسی حکمران کیلئے بھی ایسی تقریبات ہوتی ہیں۔ ان کے اقتدار سے چلے جانے کے بعد مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ ان کیلئے اقتدار چلے جانے اور جان سے چلے جانے میں کوئی فرق نہیں۔ شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے حوالے سے علامہ اقبال کے یہ اشعار ڈاکٹر راغب نعیمی کی نذر کئے جا رہے ہیں۔
مرنے والے مر تو جاتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
ہم پر اندھیری رات مسلط ہے۔ اندھیرا ہے اور اندھیر نگری ہے مگر ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے لہو کا ہر قطرہ چمکتے ہوئے درست ستارے کی مانند ہے۔
اس تقریب کیلئے ڈاکٹر راغب نعیمی کے ساتھ ضیا الحق نقشبندی بھی میرے گھر تشریف لائے تھے۔ وہ کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ نعیمی خاندان اور ان کی معرکہ آرائیوں سے وابستہ ہے۔ راشد نعیمی کے ساتھ تھوڑی دیر گاڑی میں رہا۔ علامہ عبدالستار عاصم ایک فلاحی اور تخلیقی شخصیت ہیں۔ وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جامعہ نعیمیہ کے علاوہ جامعہ رضویہ کی باتیں ہوتی رہیں۔ کئی کتابیں انہوں نے مرتب کی ہیں۔ وہ مقبول اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ راغب نعیمی میں شہید سرفراز نعیمی کی ادائیں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ جامعہ نعیمیہ کو ایک مثالی درس گاہ بنانے کی بے قراری ان کے دل میں رہی۔ یہ اضطراب کسی انقلاب کی طرف راغب نعیمی کو لے جائے گا۔ پیر کبیر علی شاہ کہتے ہیں کہ درس گاہ اور بارگاہ میں فرق مٹ جانا چاہئے۔راغب نعیمی نے جامہ نعیمیہ کو مادر علمی کہا تو وہ مادر علمی اور مادر وطن میں فاصلے پیدا کرنے والوں سے نبردآزما ہوں۔ شہباز شریف سکول اور مدرسے کی تفریق کو بھی ختم کریں۔ انقلابی جذبوں والا شاعر دوست نواز کھرل یہاں ہر تقریب میں ہوتا ہے۔ آج نہیں تھا۔ میری نگاہیں اسے ڈھونڈتی رہیں۔ وہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے عقیدت مند دوستوں میں سے ہے۔
آخر کچھ تو بات ہے کہ علماءبھی مشائخ بھی ہیں مگر ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو نشانہ بنایا گیا۔ یہی ان کی انفرادیت اہمیت اور عظمت ہے۔ جس کے دل میں بے قراریوں کے تلاطم تھے وہ جن سرشاریوں میں رہتا تھا۔ عشق رسول اس کے وجود میں وجد کرتا تھا۔ وہ موٹر سائیکل پر لاہور میں پھرتا تھا سادہ اور آسودہ۔ مجھے ان کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے بھی شہر میں بہت موٹر سائیکل چلائی ہے۔
ان کے صاحبزادے ڈاکٹر راغب نعیمی اپنے عظیم والد کے ہمشکل ہیں ہمراز ہیں اور ہمسفر ہیں۔ شہید کا سفر جاری رہتا ہے۔ کچھ شہید غازی کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں یاد کرنے سے کئی حوصلے دلوں میں آباد ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر راغب نعیمی بھی سادہ اور آسودہ ہیں۔ دونوں باپ بیٹا کو مولانا کوئی نہیں کہتا۔ ہر کوئی ڈاکٹر کہتا ہے۔ یہ بھی ایک راز ہے اور یہ بھی ایک راز ہے کہ راغب صاحب بھی لالچ اور خوف سے بے نیاز ہیں۔ مجھے بھی یہ جرا¿ت ایسے ہی دوستوں کی کمٹمنٹ سے سنبھالے رکھنے کی توفیق ملی ہوئی ہے۔ شہباز شریف سٹیج پر تھے تو میں نے کہا کہ آپ یہاں آئے ہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ اس مدرسے کے بچوں بچیوں کو بھی لیپ ٹاپ دیجیئے۔ اعلیٰ ذہانتوں کے طلبہ و طالبات کی عزت افزائی ایک بڑا کام ہے۔ ان بچوں کو گارڈ آف آنر دلوایا گیا جبکہ حکمران اور افسران اپنے علاوہ کسی کو آنرایبل نہیں سمجھتے۔ انگریزی پڑھنے والوں کو لیپ ٹاپ اور دینی مدرسوںکے بچوں کو لالی پاپ کچھ مناسب نہیں۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں اس کا وعدہ کر لیا۔
میں ایک حیرت اٹھائے پھرتا تھا وہ میں نے شہباز شریف کے سامنے رکھ دی۔ وفاقی بجٹ میں مسلم لیگ ن نے بڑا شور مچایا۔ احتجاج کیا۔ احتجاج حق ہے مگر مارکٹائی گالم گلوچ کوئی اچھی روایت تو نہیں پھر کالم نگار کالم کلوچ کرتے ہیں تو وہ خفا ہوتے ہیں۔ مگر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن یعنی پیپلز پارٹی والے بڑے احترام اور اطمینان سے پنجاب بجٹ سنتے رہے۔ اتنا انہماک ہے تو خود مسلم لیگ ن والوں نے بجٹ نہ سنا ہو گا۔ وہ سن بھی لیں تو ان کو کیا سمجھ آئے گا۔ تو کیا شہباز شریف کے پاس کوئی تعویذ وغیرہ یا چھو منتر ہے جو پیپلز پارٹی والوں کی بولتی بند کر دیتا ہے۔ لوگ اور پریشان بھی ہیں۔ میرے لئے پنجاب اپوزیشن کی تعریف کرنا مشکل ہے جسے وفاقی اپوزیشن کی مذمت کرنا مشکل ہے۔ یہ بھی کوئی مفاہمت کی سیاست تو نہیں مفاہمت میں مزاحمت بھی ہوتی ہے اور مزاحمت میں مفاہمت بھی ہوتی ہے مگر یہ نظر نہیں آنی چاہئے مگر لوگوں کو تو سب کچھ نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں سارے بجٹ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سارے حکمران ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بجٹ بھی حکومتی پالیسی ہوتی ہے اور سب سمجھتے ہیں کہ حکومتوں کی پالیسیاں کیا ہوتی ہیں۔
اسی حوالے سے میں نے عرض کیا کہ جو بھی حکمران اور سیاستدان اٹھتا ہے۔ یہی کہتا ہے کہ ہم غریبی کو ختم کر دیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ غریبی کو ختم نہ کرو تھوڑی سی امیری کو ختم کر دو۔ غریبی خودبخود ختم ہو جائے گی۔ اس بات کا ذکر شہباز شریف نے بہت کیا اور میرے خیالات کا حوالہ دے کے اس بات کی تائید کی۔ انہیں خبر ہے کہ وہ خود بھی امیر کبیر ہیں۔ دولتمند اگر دردمند ہو تو برا نہیں ہوتا۔ شہباز شریف ایک لیڈر بن سکتا ہے مگر وہ اپنے لاڈلے شیروں کے چنگل سے نکلے کہ وہ پچھلی ہر حکومت کے مشیر تھے۔ اپنے دل کی گواہی سے آگے بڑھنا چاہئے کہ یہی معرکہ روح و بدن کی سب سے بڑی سچائی ہے۔
میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اپنے دل کی سچائی‘ دین و دنیا کی بھلائی کیلئے زندگیاں لگانے والے اور زندگیاں قربان کرنے والوں کو ہم یاد کرتے ہیں اور یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی ان کی رقابت اور رہنمائی ہمیں ملتی رہتی ہے۔ کیا کبھی کسی حکمران کیلئے بھی ایسی تقریبات ہوتی ہیں۔ ان کے اقتدار سے چلے جانے کے بعد مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ ان کیلئے اقتدار چلے جانے اور جان سے چلے جانے میں کوئی فرق نہیں۔ شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے حوالے سے علامہ اقبال کے یہ اشعار ڈاکٹر راغب نعیمی کی نذر کئے جا رہے ہیں۔
مرنے والے مر تو جاتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
ہم پر اندھیری رات مسلط ہے۔ اندھیرا ہے اور اندھیر نگری ہے مگر ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے لہو کا ہر قطرہ چمکتے ہوئے درست ستارے کی مانند ہے۔
اس تقریب کیلئے ڈاکٹر راغب نعیمی کے ساتھ ضیا الحق نقشبندی بھی میرے گھر تشریف لائے تھے۔ وہ کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ نعیمی خاندان اور ان کی معرکہ آرائیوں سے وابستہ ہے۔ راشد نعیمی کے ساتھ تھوڑی دیر گاڑی میں رہا۔ علامہ عبدالستار عاصم ایک فلاحی اور تخلیقی شخصیت ہیں۔ وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جامعہ نعیمیہ کے علاوہ جامعہ رضویہ کی باتیں ہوتی رہیں۔ کئی کتابیں انہوں نے مرتب کی ہیں۔ وہ مقبول اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ راغب نعیمی میں شہید سرفراز نعیمی کی ادائیں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ جامعہ نعیمیہ کو ایک مثالی درس گاہ بنانے کی بے قراری ان کے دل میں رہی۔ یہ اضطراب کسی انقلاب کی طرف راغب نعیمی کو لے جائے گا۔ پیر کبیر علی شاہ کہتے ہیں کہ درس گاہ اور بارگاہ میں فرق مٹ جانا چاہئے۔راغب نعیمی نے جامہ نعیمیہ کو مادر علمی کہا تو وہ مادر علمی اور مادر وطن میں فاصلے پیدا کرنے والوں سے نبردآزما ہوں۔ شہباز شریف سکول اور مدرسے کی تفریق کو بھی ختم کریں۔ انقلابی جذبوں والا شاعر دوست نواز کھرل یہاں ہر تقریب میں ہوتا ہے۔ آج نہیں تھا۔ میری نگاہیں اسے ڈھونڈتی رہیں۔ وہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے عقیدت مند دوستوں میں سے ہے۔