آخر ہمارے پیر سائیں نے بھی کہہ دیا کہ اگر جنابِ شہباز شریف ، جناب پرویز الٰہی کے بنائے ہوئے منصوبوں پر عمل درآمد کر لیتے، تو، آج پنجاب برقی توانائی کے باب میں خودکفالت کی منزل حاصل کر چکا ہوتا! اگر جنابِ شہباز شریف نے سٹی ٹریفک پولیس اور ریسیکو 1122 جیسے ادارے اپنی سرپرستی میں لے لیے ہوتے،تو، آج یہ ادارے ملک کا سرمایہ ہوتے! سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ اگر، نہر کے اطراف میں رواں دواں سڑک جنابِ پرویز الٰہی کے ہاتھوں مکمل ہو جاتی،تو، کیا جنابِ شہباز شریف، اس سڑک سے گزرنا بھی اپنے اُوپر حرام کر لیتے؟ اور اگر سپیڈ ٹرانزٹ کا منصوبہ جنابِ پرویز الٰہی کے ہاتھوں شروع ہو چکا ہوتا، تو، کیا جنابِ شہباز شریف اُسے مکمل ہونے دیتے؟ کیا ارتقا کے لیے تسلسل زیادہ ضروری ہوتا ہے؟ یا، تبدیلی؟
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں! مگر،قومی ترقیاتی منصوبے اپنی چال چلتے رہتے ہیں! تربیلا کے تیسرے بجلی گھرکی تعمیر جنابِ نواز شریف کے دَورمیں شروع ہوئی! اور اس کا افتتاح محترمہ بے نظیر بھٹو نے فرمایا! غازی بڑوتھاکا عظیم الشان منصوبہ جنابِ نواز شریف نے شروع کیا! مگر، اس کا افتتاح جنابِ مشرف کے ہاتھوں ہوا! لوگ آتے جاتے رہے! مگر، کام کرنے والے کام کرتے رہے! یہ صرف دو مثالیں ہیں! ورنہ اس نوع کے منصوبوں کے آغاز اور تکمیل کی داستانیں لکھی جائیں،تو، اس میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں آغاز پانے والا کام جنابِ محمد ضیاءالحق کے دَور میں مکمل ہوا! مگر، اس کام کا غلغلہ جنابِ نواز شریف کے دوسرے دَورِ وزارت ِ عظمیٰ میں برپا ہوا! عظیم الشان ترقیاتی اور فلاحی منصوبے اتنی جلدی مکمل نہیں ہو پاتے! یہ 7 سے 10برس تک ،تو، یونہی لے جاتے ہیں! اور اس دوران بعض اوقات تین حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں! کیونکہ ایک حکومت کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 5سال ہو سکتا ہے! اور یوں ایک حکومت کے آخری سال میں اپنی تعمیر شروع کرنے والا منصوبہ ایک اور حکومت کی مسلسل سرمایہ کاری کے ذریعے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے! حتیٰ کہ تیسری حکومت کے دورانیے میں تکمیل سے ہم کنار ہو پاتا ہے! اتنی سیدھی سی بات سمجھنے کے لیے ذہن پر کچھ زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہوتی! مگر کیا کیجیے کہ اہلِ سیاست سیدھی سی بات کبھی سمجھ کر نہیں دیتے! اگر جنابِ جہانگیر بدر نہ بتاتے، تو، ہمیں کیسے پتا چلتا کہ جنابِ آصف علی زرداری ،جنابِ نواز شریف کی پیشکش کے نتیجے میں ایوانِ صدر میں جاگزیں ہوئے تھے! اور یہ خانہ خالی جنابِ نواز شریف کی ’آفر‘نے آباد کیاتھا! اور اُنہی کی دعاﺅں کے صدقے آج تک شادو شاداب اور آباد ہے! لہٰذا پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر جنابِ پرویز الٰہی بھی ، جنابِ آصف علی زرداری کے پہلو میں جگہ تلاش کرلیتے ہیں، تو، کیا برا کرتے ہیں؟ وہ تو مشرف کو بھی دس بار منتخب کروانا چاہتے تھے۔ مشرف ہی بھاگ گیا۔
ہم آج تک نہیں جان پائے کہ جنابِ شہباز شریف ، جنابِ آصف علی زر داری کے بارے میں اِتنی تیز زبان کیوں استعمال کرتے ہیں؟ حالانکہ یہ ایک بالکل سیدھا اور سادہ سا سوال ہے، مگر، کیا کریں کہ ذہن ساتھ نہیں دے پاتا! اور اعصاب جواب دے جاتے ہیں:
ہر آن نئے سوال تائب
اعصاب جواب دے گئے ہیں
بات صرف اتنی ہے کہ جنابِ آصف علی زرداری نے’ سرحد‘ کے لیے ’خیبر پی کے ‘کا نام دینے میں جتنی تیزی دکھائی تھی! اُس سے کہیں زیادہ پھرتی پنجاب کے تین ٹکڑے کرنے میں دکھا رہے ہیں! کیا ہم جان سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟’سرحد‘ کے غیرپختون عوام کی رضا کے خلاف اُسے ’خیبر‘ کی جگہ ’خیبر پی کے‘ کیوں کیا گیا؟ نواز شریف بھی اس معاملے میں جوابدہ ہیں۔ اور اب بہاول پور کے ساتھ ساتھ ملتان ایک الگ صوبہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟اس میں کس جماعت کا سیاسی فائدہ ہے؟کہیں یہ’ مشترکہ مفادات‘ کی آسمانی کونسل کا فیصلہ ،تو، نہیں؟کاش! یہ کونسل ، اس فیصلے کے اندر موجود تضادات کا حساب بھی کر لیتی!
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں! مگر،قومی ترقیاتی منصوبے اپنی چال چلتے رہتے ہیں! تربیلا کے تیسرے بجلی گھرکی تعمیر جنابِ نواز شریف کے دَورمیں شروع ہوئی! اور اس کا افتتاح محترمہ بے نظیر بھٹو نے فرمایا! غازی بڑوتھاکا عظیم الشان منصوبہ جنابِ نواز شریف نے شروع کیا! مگر، اس کا افتتاح جنابِ مشرف کے ہاتھوں ہوا! لوگ آتے جاتے رہے! مگر، کام کرنے والے کام کرتے رہے! یہ صرف دو مثالیں ہیں! ورنہ اس نوع کے منصوبوں کے آغاز اور تکمیل کی داستانیں لکھی جائیں،تو، اس میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں آغاز پانے والا کام جنابِ محمد ضیاءالحق کے دَور میں مکمل ہوا! مگر، اس کام کا غلغلہ جنابِ نواز شریف کے دوسرے دَورِ وزارت ِ عظمیٰ میں برپا ہوا! عظیم الشان ترقیاتی اور فلاحی منصوبے اتنی جلدی مکمل نہیں ہو پاتے! یہ 7 سے 10برس تک ،تو، یونہی لے جاتے ہیں! اور اس دوران بعض اوقات تین حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں! کیونکہ ایک حکومت کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 5سال ہو سکتا ہے! اور یوں ایک حکومت کے آخری سال میں اپنی تعمیر شروع کرنے والا منصوبہ ایک اور حکومت کی مسلسل سرمایہ کاری کے ذریعے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے! حتیٰ کہ تیسری حکومت کے دورانیے میں تکمیل سے ہم کنار ہو پاتا ہے! اتنی سیدھی سی بات سمجھنے کے لیے ذہن پر کچھ زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہوتی! مگر کیا کیجیے کہ اہلِ سیاست سیدھی سی بات کبھی سمجھ کر نہیں دیتے! اگر جنابِ جہانگیر بدر نہ بتاتے، تو، ہمیں کیسے پتا چلتا کہ جنابِ آصف علی زرداری ،جنابِ نواز شریف کی پیشکش کے نتیجے میں ایوانِ صدر میں جاگزیں ہوئے تھے! اور یہ خانہ خالی جنابِ نواز شریف کی ’آفر‘نے آباد کیاتھا! اور اُنہی کی دعاﺅں کے صدقے آج تک شادو شاداب اور آباد ہے! لہٰذا پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر جنابِ پرویز الٰہی بھی ، جنابِ آصف علی زرداری کے پہلو میں جگہ تلاش کرلیتے ہیں، تو، کیا برا کرتے ہیں؟ وہ تو مشرف کو بھی دس بار منتخب کروانا چاہتے تھے۔ مشرف ہی بھاگ گیا۔
ہم آج تک نہیں جان پائے کہ جنابِ شہباز شریف ، جنابِ آصف علی زر داری کے بارے میں اِتنی تیز زبان کیوں استعمال کرتے ہیں؟ حالانکہ یہ ایک بالکل سیدھا اور سادہ سا سوال ہے، مگر، کیا کریں کہ ذہن ساتھ نہیں دے پاتا! اور اعصاب جواب دے جاتے ہیں:
ہر آن نئے سوال تائب
اعصاب جواب دے گئے ہیں
بات صرف اتنی ہے کہ جنابِ آصف علی زرداری نے’ سرحد‘ کے لیے ’خیبر پی کے ‘کا نام دینے میں جتنی تیزی دکھائی تھی! اُس سے کہیں زیادہ پھرتی پنجاب کے تین ٹکڑے کرنے میں دکھا رہے ہیں! کیا ہم جان سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟’سرحد‘ کے غیرپختون عوام کی رضا کے خلاف اُسے ’خیبر‘ کی جگہ ’خیبر پی کے‘ کیوں کیا گیا؟ نواز شریف بھی اس معاملے میں جوابدہ ہیں۔ اور اب بہاول پور کے ساتھ ساتھ ملتان ایک الگ صوبہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟اس میں کس جماعت کا سیاسی فائدہ ہے؟کہیں یہ’ مشترکہ مفادات‘ کی آسمانی کونسل کا فیصلہ ،تو، نہیں؟کاش! یہ کونسل ، اس فیصلے کے اندر موجود تضادات کا حساب بھی کر لیتی!