اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں بدترین اور مایوس کن کارکردگی کے بعد قومی ہاکی ٹیم ان دنوں یورپ کے دورے پر ہے۔ اسے بھی اولمپکس کی تیاریوں کے لئے بڑا اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ہاکی فیڈریشن کے کرتا دھرتاﺅں اور کرم فرماﺅں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ رواں سال ہونے والے اولمپکس مقابلے پاکستان ہاکی فیڈریشن کا ہدف نہیں ہیں۔ سبحان اللہ، پھر ہدف کیا ہے۔ ویلیاں کھاﺅ تے موج اڑاﺅ اور شکست پر شکست کھا کر ملک کو بدنام کراﺅ۔ اگر گھر بیٹھے ہی شکست کا سوچ لیا ہے تو اولمپکس میں حصہ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اذلان شاہ میں قومی ٹیم کی ناکامی کے بعد فیڈریشن نے ایک مرتبہ پھر سینئر کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا ہے۔ پی ایچ ایف حکام کی قلابازیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ کبھی سینئرز کو آﺅٹ کر دیا جاتا ہے تو کبھی ان کے بغیر نیند نہیں آتی۔ کبھی نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں تو کبھی انہیں یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ کبھی ہم یہ سنتے ہیں کہ موجودہ ٹیم ملکی تاریخ کی نوجوان ترین ٹیم ہے اور یہ پاکستان کا مستقبل ہے۔ آنے والے 8سے 10 برس تک یہی کھلاڑی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے وطن عزیز کا نام روشن کریں گے اور انہی کھلاڑیوں سے ہمیں توقعات ہیں کہ یہ پاکستان کے دنیائے ہاکی میں کھوئے ہوئے تمام اعزازات واپس لے کر آئیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے یہ کھلاڑی اتنے ہی باصلاحیت ہیں۔ ان پر اتنا اعتماد ہے تو پھر ٹیم میں بار بار توڑ پھوڑ کیوں کی جا رہی ہے۔ اولمپکس مقابلے ہدف نہیں ہیں تو پھر جونیئرز کو دل بڑا کرکے کھیلنے دیں وہ تجربہ حاصل کریں بڑے ٹورنامنٹ سے سیکھیں اور آنے والے وقت میں بہترین کھلاڑی کے طور پر سامنے آئیں۔
قوم اور ماہرین ہاکی تو یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اولمپکس جسے دنیا میں کھیلوں کی معراج کہا جاتا ہے وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کا ہدف کیوں نہیں؟ پی ایچ ایف کے صدر اولمپئن قاسم ضیاءمتعدد بار اولمپکس کو اپنا ہدف قرار دے چکے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے سیکرٹری 2014ءکے عالمی کپ کو اپنا مقصد اور ٹارگٹ بنائے بیٹھے ہیں۔ عالمی کپ نزدیک آنے پر پھر نہ ہدف بدل لیں۔ پی ایچ ایف کی دو اہم شخصیات کے بیانات اور اہداف میں تضاد خاصا حیران کن ہے۔ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ سے واپسی میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی چند گھنٹوں بعد ہی نظرانداز کئے جانے والے وسیم احمد اور شکیل عباسی پر نظر کرم ہوئی اور وہ ٹیم کا حصہ بن گئے۔ کیا ایسی اچانک تبدیلیاں کھلاڑیوں اور بالخصوص جونیئر کھلاڑیوں کو جنہیں حکام خود پاکستان ہاکی کا مستقبل قرار دے رہے ہیں ان پر اچھا اثر چھوڑیں گی؟
پی ایچ ایف حکام نیک نیتی، ایمانداری، خلوص، دلجمعی اور لگن کے ساتھ کام کر رہے ہوں گے۔ ان کا وژن اور منصوبہ بندی بھی بڑی شاندار ہو گی لیکن ایسے فیصلے، قلابازیاں، جلد بازیاں اور پھرتیاں و چستیاں نا صرف مایوسی پھیلاتی ہیں بلکہ فیصلوں کو مشکوک بھی بناتی ہیں۔
ہم نے 2010ءمیں ایشین گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اصولی طور پر اب ہمارا ہدف اولمپکس میں اچھی کارکردگی کے بعد ایشین گیمزکے گولڈ میڈل کا دفاع اور پھر 2014ءکے عالمی کپ کے حصول کی جدوجہد لازم ہے۔ سرعت، پھرت اور بیان بازی کے بجائے باہمی مشاورت ناصرف کئی ایک تنازعات سے بچا سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فیصلوں میں آسانی اور اہداف کا حصول بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں ناکامی کے بعد ٹیم میں تبدیلیوں کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ماہرین کے نزدیک یہ ایک غلط فیصلہ ہے وہ بھی ان حالات میں جب آپ طویل المدتی منصوبوں پر کام کر رہے ہوں۔ دنیا بھر کی ہاکی ٹیمیں چار سال کے بعد مکمل تیاری کے ساتھ لندن اولمپکس میں شریک ہوں گی اور ہم ابھی تک اسی سوچ میں پھنسے نظر آتے ہیں کہ کون کھیلے گا اور کون نہیں، کیا پلاننگ اسی کو کہتے ہیں؟
اذلان شاہ میں قومی ٹیم کی ناکامی کے بعد فیڈریشن نے ایک مرتبہ پھر سینئر کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا ہے۔ پی ایچ ایف حکام کی قلابازیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ کبھی سینئرز کو آﺅٹ کر دیا جاتا ہے تو کبھی ان کے بغیر نیند نہیں آتی۔ کبھی نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں تو کبھی انہیں یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ کبھی ہم یہ سنتے ہیں کہ موجودہ ٹیم ملکی تاریخ کی نوجوان ترین ٹیم ہے اور یہ پاکستان کا مستقبل ہے۔ آنے والے 8سے 10 برس تک یہی کھلاڑی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے وطن عزیز کا نام روشن کریں گے اور انہی کھلاڑیوں سے ہمیں توقعات ہیں کہ یہ پاکستان کے دنیائے ہاکی میں کھوئے ہوئے تمام اعزازات واپس لے کر آئیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے یہ کھلاڑی اتنے ہی باصلاحیت ہیں۔ ان پر اتنا اعتماد ہے تو پھر ٹیم میں بار بار توڑ پھوڑ کیوں کی جا رہی ہے۔ اولمپکس مقابلے ہدف نہیں ہیں تو پھر جونیئرز کو دل بڑا کرکے کھیلنے دیں وہ تجربہ حاصل کریں بڑے ٹورنامنٹ سے سیکھیں اور آنے والے وقت میں بہترین کھلاڑی کے طور پر سامنے آئیں۔
قوم اور ماہرین ہاکی تو یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اولمپکس جسے دنیا میں کھیلوں کی معراج کہا جاتا ہے وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کا ہدف کیوں نہیں؟ پی ایچ ایف کے صدر اولمپئن قاسم ضیاءمتعدد بار اولمپکس کو اپنا ہدف قرار دے چکے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے سیکرٹری 2014ءکے عالمی کپ کو اپنا مقصد اور ٹارگٹ بنائے بیٹھے ہیں۔ عالمی کپ نزدیک آنے پر پھر نہ ہدف بدل لیں۔ پی ایچ ایف کی دو اہم شخصیات کے بیانات اور اہداف میں تضاد خاصا حیران کن ہے۔ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ سے واپسی میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی چند گھنٹوں بعد ہی نظرانداز کئے جانے والے وسیم احمد اور شکیل عباسی پر نظر کرم ہوئی اور وہ ٹیم کا حصہ بن گئے۔ کیا ایسی اچانک تبدیلیاں کھلاڑیوں اور بالخصوص جونیئر کھلاڑیوں کو جنہیں حکام خود پاکستان ہاکی کا مستقبل قرار دے رہے ہیں ان پر اچھا اثر چھوڑیں گی؟
پی ایچ ایف حکام نیک نیتی، ایمانداری، خلوص، دلجمعی اور لگن کے ساتھ کام کر رہے ہوں گے۔ ان کا وژن اور منصوبہ بندی بھی بڑی شاندار ہو گی لیکن ایسے فیصلے، قلابازیاں، جلد بازیاں اور پھرتیاں و چستیاں نا صرف مایوسی پھیلاتی ہیں بلکہ فیصلوں کو مشکوک بھی بناتی ہیں۔
ہم نے 2010ءمیں ایشین گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اصولی طور پر اب ہمارا ہدف اولمپکس میں اچھی کارکردگی کے بعد ایشین گیمزکے گولڈ میڈل کا دفاع اور پھر 2014ءکے عالمی کپ کے حصول کی جدوجہد لازم ہے۔ سرعت، پھرت اور بیان بازی کے بجائے باہمی مشاورت ناصرف کئی ایک تنازعات سے بچا سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فیصلوں میں آسانی اور اہداف کا حصول بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں ناکامی کے بعد ٹیم میں تبدیلیوں کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ماہرین کے نزدیک یہ ایک غلط فیصلہ ہے وہ بھی ان حالات میں جب آپ طویل المدتی منصوبوں پر کام کر رہے ہوں۔ دنیا بھر کی ہاکی ٹیمیں چار سال کے بعد مکمل تیاری کے ساتھ لندن اولمپکس میں شریک ہوں گی اور ہم ابھی تک اسی سوچ میں پھنسے نظر آتے ہیں کہ کون کھیلے گا اور کون نہیں، کیا پلاننگ اسی کو کہتے ہیں؟