سپریم کورٹ میں جسٹس جواد ایس خواجہ اورجسٹس خلیجی عارف حسین پرمشتمل دورکنی بینچ نے ارسلان افتخار کیس کی سماعت کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کیس کوانصاف کے تقاضوں کے مطابق سنے گی۔عدلیہ کی ساکھ ہرصورت مقدم ہے کیونکہ ان اداروں کی آبیاری عوام نے کی ہے۔ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے تراسی صفحات پرمشتمل اپنے موکل کا جواب عدالت میں پیش کیا جس میں ارسلان افتخار کو دی جانے والی نقد رقوم اور دیگر مراعات کی تفصیلات سمیت بینچ کی تشکیل اورازخود نوٹس لینے کے خلاف اعتراضات بھی شامل تھے۔ اپنے جواب میں ملک ریاض نے کہا کہ معاملہ عوامی اہمیت کا نہیں اس پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینا غیرقانونی ہے وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں ان پر ججز کو بدنام کرنے کے الزامات درست نہیں ہیں۔ ملک ریاض نے اپنے بیان میں کہا کہ ارسلان افتخارنے ان کے داماد کو سپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون اور میرے خلاف زیرالتوامقدمات میں ریلیف دلانے کا جھانسہ دے کربیتس کروڑ اورسترلاکھ روپے اوردیگرمراعات حاصل کیں لیکن انہیں دوہزارنوسے لے کراب تک سپریم کورٹ سے کسی کیس میں ریلیف نہیں ملا، ڈاکٹر ارسلان فراڈ اور بدعنوانی کے مرتکب ہیں جو نیب قانون کے زمرے میں آتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ارسلان افتخار نے چیف جسٹس کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے ناجائزہ فائدہ اٹھایا،معاملےمیں صدر، وزیراعظم،کوئی سیاسی شخصیت، جماعت اور ایجنسی ملوث نہیں ہے۔ عدالت نےملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری سے استفسارکرتےہوئے کہا کہ جب ملک ریاض کے داماد سلمان احمد کا عدالت عظمٰی میں کوئی بھی کیس زیرالتوا نہیں توپھروہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات میں ریلیف کیوں چاہتے تھے۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ زاہد بخاری نے کیس ٹرائل کے لیے لارجربینچ، عدالتی کمیشن یا نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن سیل اورپولیس میں سے کسی بھی ایک سکیورٹی فورس کوبھجوانے کی تجاویزدیں جبکہ اٹارنی جنرل عرفان قادرنے ارسلان افتخارکیس نیب کوبھجوانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طورپراس مقدمے کی تفتیش نیب کوکرنا چاہیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے تمام تجاویز پر غورکے لیے سماعت چودہ جون تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ٹرائل کرانے کا فیصلہ دوروزبعد کرے گئی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024